26

شہادت امام حسین ۔۔۔ اور مصطفائی معاشرہ

اسلامی سال کا آغاز اور اختتام قربانیوں سے ھوتا ھے محرم الحرام کا مہینہ کربلا میں برپا ہونے والے حق وباطل کے درمیان معرکہ کی یاد دلاتا ھے اور اسلامی سال کا آخری مہینہ ہمیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ھے ۔ اگر غور کیا جائے کیا جائے تو اسلام کی ابتدا قربانیوں سے ھوئی مکہ میں صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر قربانی پیش کی ، جانی مالی ، اخلاقی ہر قسم کی قربانی دی اور اسلام کی بنیادوں پر قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ھو گیا ۔ ہر دور میں ہر وقت کے ابوجہل اور یزید کے خلاف حق پرستوں نے قربانی دی ھے کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے جو قربانی دی اس کی مثال نہیں ملتی ۔ تاریخ میں اس قربانی نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حق پرستوں کے لئے مشعل راہ کا کام کیا ھے ہر حق پرست خود کو حسینی قافلے کا ادنی سا سپاہی سمجھتا ھے۔ اس دور جہاں نام نہاد مادیت پرستی کو ترقی کا نام دے کر پوجا جا رھا ھے جہاں روپیہ پیسہ ہی سب کچھ ھے جہاں انسانی اخلاقی اقدار ختم ھو رہی ہیں اسلام کی اجتماعیت کی تعلیم مغربی معاشرے کی ڈوبتی ہوئی کشتی ڈبوئی جا رہی ھے۔ ضرورت اس امر کی ھے ھم اس بات کا جائزہ لیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اہل خانہ اور جانثار ساتھیوں کے ہمراہ اتنی بڑی قربانی کیوں دی جسے تاریخ آج تک نہیں بھلا سکی ، کیا اس وقت نماز پڑھنے پر پابندی تھی کیا اس وقت حج کرنے پر پابندی تھی کیا اس وقت جہاد کرنے پر پابندی تھی کیا اس وقت روزے رکھنے پر پابندی تھی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ھے کہ یزید نے کسی ایک ارکان اسلام پر پابندی نہیں لگائی تھی پھر وہ کون سی ضرورت پیش آئی کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل خانہ اور جانثار ساتھیوں کے ہمراہ کربلا کے تپتے صحرا پر اپنا سب کچھ قربان کر دیا ۔ اب پھر ھم تاریخ سے مدد لیتے ہیں کہ حضرت امام حسین رضی عنہ نے اتنی بڑی قربانی کس لئے دی ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ شریف میں پہلی اسلامی نظریاتی مملکت کی بنیاد رکھی جس میں ہر کام قرآن وسنت کے مطابق ھوتا تھا ایک ایسے مصطفائی معاشرے کا قیام عمل میں آیا جس کی مثال اب تک یہ کوئی تہذیب دی سکی اور نہ ہی کسی قیمت پر کوئی تہذیب دے سکے گی ۔ الغرض دنیا کا بے عیب کوئی دور تھا تو وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دور تھا اس کے بعد خلفا راشدین کے دور شروع ھوئے خلفا راشدین کے دور کا بخوبی اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ھے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا ھوا ھے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اگر کوئی اونٹ باندھنے والی رسی دیتا تھا اور وہ رسی دینے سے انکار کرے گا تو میں اس سے جہاد کروں گا حضرت عثمان غنی رضہ اللہ عنہ کی شہادت سے امت مسلمہ انتشار کا شکار ھو گئی کچھ مفاد پرست لوگوں نے جو نئے نئے اسلام میں داخل ھوئے تھے اس ایشو کو اتنا اچھلا کہ مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ھو گئے ۔اور کئی ایک لڑائیوں میں سینکڑوں مسلمان شہید ھو گئے لیکن حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے دور تک اسلامی معاشرے کی بنیادی اکائیوں کو کسی نے نہ چھیڑا ۔ یزید کے دور میں اسلام کی بنیادی اکائیوں کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی مثلا اسلام میں شراب حرام ھونے کے بعد یزید پہلا سربراہ ھے جس نے شراب پی ، اسلام میں یزید پہلا شخص جس نے شیو کرائی ، یزید پہلا شخص جس نے حرام رشتوں کو حلال کرنے کی کوشش کی الغرض ہر وہ چیز جو ایک اسلامی معاشرے کے لیے نقصان دہ تھی اس نے اپنانے کی کوشش کی یعنی اسلامی اقدار کو ختم کرانے کی کوشش کی۔ اب جب تک ھم مکمل طور پر داخل نہیں ھو جاتے اس وقت تک کامل مومن نہیں ھو سکتے اگر انکار کریں کسی ایک اسلامی اقدار کا تو اسلام سے خارج اگر اس پر سہوا” عمل نہ کریں تو عذاب الہی کے مستحق ہیں جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے رفقا کار نے اسلامی اقدار کو ختم ھوتے دیکھا تو اس فاسق و فاجر سربراہ کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے اور عوام کو سربراہ کے کرتوتوں سے آگاہ کرنے کے لیے کربلا کا سفر اختیار کیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا حکومت حاصل کرنا یزید کے ساتھ جنگ کرنا مقصد نہیں تھا بلکہ یزیدی خرافات کے خاتمے کے لیے عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے اتنا طویل سفر کیا جس میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کامیاب و کامران رھے اور یزید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لعنت کا مستحق قرار پایا ، اب ہمیں اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے کہ جو خود کو حسینی کہلاتے ہیں کہیں یزید والے کام تو نہیں کر رھے صرف حسینی کہلانے سے مسئلہ حل نہیں ھو گا حسینی کہلانے کے لیے ہر دور میں میدان کربلا سجانے پڑتے ہیں اگر سچ مچ اپنے کردار پر نظر دوڑائیں تو ھمارے سر شرم سے خود بخود جھک جائیں گے اور خود کو یزیدی ٹولے میں شامل سمجھیں گے ۔ موجودہ دور میں بھی کسی پر نماز پڑھنے پر پابندی نہیں ، کسی پر حج کرنے پر پابندی نہیں ، کسی پر روزے رکھنے پر پابندی نہیں کشمیر سے لیکر فلپائن ، فلسطین ،چچینیا تک جہاد ھو رھا ھے لیکن اس کے باوجود ہر جگہ مسلمان ذلیل وخوار ھو رھے ھیں کیونکہ جس مصطفائی معاشرے کی بنیاد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ شریف میں رکھی تھی یزید کے دور سے اس میں رخنہ ڈال دیا گیا اب روشن خیالی ، مادہ پرستی میں مبتلا ھو کر آخرت سے بے خبر کئی ہندوانہ رسومات میں مبتلا ھو کر اسلامی اقدار سے دور ھو گئے ھیں پھر بھی حسینی کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں ضرورت اس امر کی ھے کہ شادی بیاہ ، میلے ٹھیلوں ، بسنت ، میراتھن ریس اور حال ہی میں کراچی میں قائم کیا جانے والا انسانی دودھ کا بنک اور دیگر خرافات جو ھم کرتے ہیں ان کو حکومت اور ھم خود ختم کریں ناچ گانے ، جوا شراب ، مخلوط بے حیائی کے پروگرام ، رشوت ، لوٹ کھسوٹ ، اور دیگر سماجی برائیاں اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں نماز ، روزہ، حج ، زکو اور جہاد اس وقت قبول ھوں گے جب ھم حلال سمجھیں گے بصورت دیگر حسینی کہلانے کے مقاصد حاصل نہیں ھوتے حسینی ھونے کا واضح مطلب ھے کہ ھم ایک مصطفائی معاشرے کے قیام کے لیے سب کچھ قربان کر دیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں