55

صنفی تغاوت: ایک معاشرتی حسن

دنیا کی تخلیق میں اگر عقل مرد کی نمائندہ ہے، تو جذبات عورت کی پہچان ہیں۔ مرد اور عورت انسانی وجود کے دو اہم پہلو ہیں ایک فعال قوت، دوسرا لطیف جذبہ؛ ایک تشکیل دینے والا، دوسرا سنوارنے والا۔ اسی حسین امتزاج کا عکس ہمیں اس جملے میں دکھائی دیتا ہے: “سانفی تفدد، اک مشاطی حسن” یعنی عورت کی نزاکت، حسن کو نکھارنے والی سنگھار ہے۔عورت کو فطرت نے نرمی، محبت، اور لطافت عطا کی ہے۔ اس کی فطرت میں صبر بھی ہے، اور سلیقہ بھی۔ عورت کا وجود صرف جسمانی حسن تک محدود نہیں، بلکہ اس کی باتوں کی نرمی، جذبوں کی صداقت اور آنکھوں کی زبان بھی حسن کی تشریح کرتی ہے۔”سانفی تفدد” سے مراد یہی نسوانی نرمی ہے، جو نہ صرف گھر کو جنت بناتی ہے، بلکہ معاشرتی حسن کو بھی سنوارتی ہے۔ ایک ماں، ایک بیوی، ایک بہن یا ایک بیٹی کی صورت میں عورت مرد کی زندگی کو معنی بخشتی ہے۔دیکھیں، ہمارے یہاں بچپن سے ہی بچوں کے ذہن میں ایک سوچ ڈال دی جاتی ہیلڑکا پیدا ہوا؟تو فورا کہا جاتا ہے:”یہ تو خاندان کا سہارا بنے گا، باپ کا بازو بنے گا، باہر کی دنیا “سنبھالے گا۔اور اگر لڑکی ہو جایے۔تو کہا جاتا ہے: اللہ کی رحمت ہے، لیکن بس اسے عزت سے رخصت کرنا ہے، پردے میں رکھنا ہے، اور گھر کے کام سکھانے۔اب ذرا سوچیں، یہی سے تو فرق شروع ہو جاتا ہے۔مرد کا کردار طاقت، ذمہ داری، لیکن دبا بھی۔ ہمارے معاشرے میں مرد کو گھر کا سربراہ مانا جاتا ہے۔ اسے کمانا ہے، سب فیصلے کرنے ہیں، ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچوں سب کا بوجھ اس پر ہوتا ہے۔لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچا کہ اس سب دبا میں وہ مرد اندر سے کیا محسوس کرتا ہے؟اسے رونے، تھکنے، یا کمزور ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔اگر وہ کبھی تھک جائے، یا کہہ دے کہ “میں نہیں سنبھال پا رہا” تو لوگ کہتے ہیں:کیسا مرد ہے؟ مرد کبھی ہارتا نہیں یعنی ہمارے معاشرے نے مرد کو روبوٹ بنا دیا ہے۔عورت کا کردار نرمی، محبت، قربانی مگر محدود دائرہ؟ عورت کو کہا جاتا ہے: تم گھر کی عزت ہو، نرمی کی علامت ہو، تمہارے بغیر گھر نہیں چلتا۔ یہ بات سننے میں اچھی لگتی ہے، لیکن اصل میں اس کا مطلب ہوتا ہے: بس گھر کے اندر رہو، پردے میں رہو، برداشت کرو، سوال نہ کرو”عورت اگر بولے تو بدتمیز، اگر کچھ مانگے تو خودغرض، اگر خود کمانے نکلے تو “آزاد خیال” کہہ دیا جاتا ہے۔ اصل مسئلہ جینڈر رولز کا جس نے مرد اور عورت کے الگ الگ ”کردار”بنا دیئے ہیں یہ صرف دونوں کے لیے غیر منصفانہ ہے بلکہ یہ پورے معاشرے کو ”کمزور” کرتا ہے۔ کیونکہ:مرد کو صرف ”کمانے والی مشین” سمجھا جاتا ہے۔ عورت کو صرف ”خاموش، خدمت گزار، قربانی دینے والی” سمجھا جاتا ہے حالانکہ دونوں انسان ہیں، دونوں کے جذبات ، خواب، خواہشات اور حقوق ہوتے ہیں۔ شہروں میں تبدیلی، گاں میں جدوجہداور شہری علاقوں میں اب آہستہ آہستہ تبدیلی آ رہی ہے: عورتیں یونیورسٹی جا رہی ہیں مرد گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ میاں بیوی فیصلے ملکر رہے ہیں۔ والدین بیٹی کو بھی بیٹے جتنا حق دے رہے ہیںلیکن دیہی علاقوں میں ابھی بھی: بیٹی کی تعلیم بند کر دی جاتی ہے عورت کا بولنا بے ادبی سمجھا جاتا ہے مرد کو سب کچھ، عورت کو کچھ نہیں دیا جاتاحل کیا ہے؟ سوچ بدلنی چاہیے۔ تعلیم: لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو بچپن سے سکھانا چاہیے کہ عزت، فیصلہ، محبت، سب کا حق برابر ہے۔ مردوں کی تربیت: مرد کو سکھانا ہوگا کہ رونا، کمزور پڑنا، احساس کرنا، یہ بھی انسانیت ہے اور اس میں کوئی شرم نہیں۔ عورتوں کا ساتھ دینا: عورت اگر کچھ بننا چاہتی ہے ڈاکٹر، وکیل، استاد، یا کاروباری تو اس کا ساتھ دینا چاہیے، روکنا نہیں۔میڈیا اور مذہب کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا: ہمیں اپنی فلموں، ڈراموں، اور مذہبی پیغامات کے ذریعے بھی یہ سکھانا ہے کہ برابری کا مطلب عورت کا اونچا ہونا نہیں بلکہ ساتھ چلنا ہے۔مرد فطری طور پر مضبوط، فیصلہ کن اور محافظ ہے۔ اس کے اندر قیادت کی صلاحیت بھی ہے اور قربانی کا جذبہ بھی۔ مگر مرد کا حسن اس کی طاقت میں نہیں، بلکہ اس کی شفاف نیت، اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے، اور عورت کی عزت و توقیر میں پنہاں ہے۔عورت کی نرمی مرد کی سختی کو توازن دیتی ہے، اور مرد کی دانش عورت کی جذباتیت کو سمت عطا کرتی ہے۔ یہ دونوں عناصر مل کر حسن کو کامل بناتے ہیں۔حسن کا سنگھار: باہمی توازن “مشاطی حسن”کا مطلب صرف ظاہری سجاوٹ نہیں بلکہ وہ کیفیت ہے جو حسن کو کمال پر پہنچاتی ہے۔عورت کی نرمی، اس کا تحمل، اور احساسات کی گہرائی یہ سب مرد کی زندگی میں ایک ایسا توازن پیدا کرتے ہیں جو نہ صرف دل کو سکون دیتا ہے بلکہ زندگی کے سفر کو خوبصورت بناتا ہے۔مرد اور عورت کی فطرت الگ ہو سکتی ہے، لیکن ان کا باہمی وجود ایک مکمل تصویر کی طرح ہے جہاں رنگ عورت کی نرمی سے آتا ہے اور خاکہ مرد کے کردار سے۔ کوئی رنگ بغیر خاکے کے بکھر جاتاہے، اور کوئی خاکہ رنگوں کے بغیر بے جان لگتا ہے۔آخر میں ایک سچی بات مرد اور عورت ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں۔اگر ایک کمزور ہو جائے، یا روکا جائے، تو گاڑی نہیں چل سکتی۔ہمیں لڑائی نہیں، ساتھ چلنے کی سوچ پیدا کرنی ہے۔تاکہ نہ صرف گھروں میں سکون ہو، بلکہ پورا معاشرہ ترقی کرے۔آج کا انسان ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کی کوشش تو کر رہا ہے، مگر رشتوں میں ہم آہنگی، برداشت اور محبت کا فقدان اسے تنہائی، بے سکونی اور الجھن کی طرف دھکیل رہا ہے۔ معاشرے کی بنیاد گھر ہے، اور گھر تب ہی خوشحال ہوتا ہے جب مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ مل کر، سمجھ داری اور خلوص سے زندگی گزاریں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ رشتے مقابلے سے نہیں، ساتھ چلنے سے مضبوط ہوتے ہیں۔ مرد و عورت ایک دوسرے کے حریف نہیں، بلکہ شریکِ سفر ہیں۔ جب ہم “میں” کے بجائے “ہم” کی سوچ اپنائیں گے، تو نہ صرف ہمارے گھروں میں سکون ہوگا، بلکہ پورا معاشرہ فکری، اخلاقی اور معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ہم لڑائی نہیں، ساتھ چلنے کی سوچ پیدا کریں یہی پائیدار خوشی، کامیاب خاندان اور مہذب معاشرے کی اصل کنجی ہے۔ہم اکثر معاشرتی بگاڑ کی وجوہات تلاش کرتے ہیں، لیکن خود کو ان مسائل سے الگ تصور کرتے ہیں۔ اصل تبدیلی وہاں سے آتی ہے جہاں ہر فرد خود کو جوابدہ سمجھنے لگے۔ عورت ہو یا مرد، ہر ایک کو اپنے کردار کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا۔ عورت صرف گھر تک محدود نہیں، اور مرد صرف کفیل نہیں دونوں ایک دوسرے کے جذبات، خواب، رائے اور زندگی کے فیصلوں کا برابر حصہ ہیں۔ تعلقات کی اصل خوبصورتی طاقت میں نہیں، بلکہ احترام میں ہے۔ جب ہم اپنے دائرہ کار اور اختیار کو “کنٹرول” کے بجائے “خدمت ” سمجھیں گے، تب ہی ہم ایک ایسا ماحول تشکیل دے سکیں گے جہاں نہ تو انا کی جنگ ہو، نہ بے حسی کا راج، بلکہ شعور، قربانی اور باہمی عزت کی فضا ہو۔ یہی وہ سوچ ہے جو خاندانوں میں اعتماد اور معاشروں میں عدل و توازن پیدا کرتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں