42

ظالم بجٹ’ مہنگائی کی نئی لہر (ادایہ)

موجودہ حکومت کے پیش کردہ بجٹ نے ایک بار پھر عوام میں بے چینی کی لہر پیدا کر دی ہے، اشیاء ضروریہ کی ہر چیز عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے، غریب طبقہ بُری طرح پس رہا ہے مگر حکمران اس پر رحم کھانے کیلئے تیار نہیں حکومت خود تسلیم کر چکی ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف کے کہنے پر بنایا گیا ہے یعنی اس کا مطلب ہے کہ اب پاکستان کے عوام آئی ایم ایف کے رحم وکرم پر ہیں آٹا’ دالیں’ دودھ’ دہی’ پولٹری مصنوعات’ فروٹس’ سبزیاں ہر شے کے نرخوں میں اضافہ ہو گیا ہے عام آدمی اسے ظالم بجٹ قرار دے رہا ہے، اس کا ذمہ دار حکمرانوں کو ٹھہرا رہا ہے گزشتہ پندرہ بیس برسوں کے دوران اقتدار جن کے پاس رہا وہ ہی اس ملک کو اس حال تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی بولیاں بول رہی ہیں جو جماعت اقتدار میں ہے وہ مطمئن جو باہر ہے وہ اقتدار میں آنے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے بجلی کے بلوں نے لوگوں کی یہ حالت بنا دی ہے کہ وہ زندگی سے عاجز آ چکے ہیں ذرا غور کریں جب ساٹھ سے 70روپے بجلی کا ایک یونٹ ملے گا تو 100 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے کو 7000 روپے بجلی اور ٹیکسز ڈال کر پندرہ ہزار روپے کا بل تو آئے گا 100 سے زائد یونٹس استعمال کرنے والوں کو اس سے بھی زیادہ رقم ادا کرنی ہو گی جو ظلم ہے بجلی تقسیم کرنیوالی کمپنیوں نے اپنے خسارے کو پورا کرنے کیلئے آسان حل ڈھونڈ رکھا ہے وہ نیپرا کو کبھی لائن لاسز کبھی فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کے فی یونٹ نرخوں میں اضافہ کی درخواست دے دیتی ہیں نیپرا قیمتوں میں اضافہ کا اعلان کر دیتا ہے اوگرا پٹرول اور گیس کے نرخ بڑھانے میں مصروف ہے عام آدمی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے کسی کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا کہ وہ کیسے زندگی کی گاڑی کھینچے! قومی اسمبلی’ صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے بے معنی وبے مقصد اجلاسوں پر کروڑوں خرچ کئے جا رہے ہیں عام آدمی ٹیکس دیتا رہے حکمران اور سرکاری افسران مراعات لیے رہیں یہ کہاں کا انصاف ہے اب بجٹ میں بے حساب ٹیکس عائد کر کے عوام پر جو ظلم ڈھایا جا رہا ہے اس سے لوگ ذہنی مریض بن رہے ہیں وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی کہا کہ بجٹ میں ٹیکس آئی ایم ایف کے دبائو پر لگایا گیا، اگر ملک کا وزیردفاع بجٹ کو ملک کی خودمختاری کے لیے خطرہ قرار دے گا تو پھر زیادہ مثالوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی حکومت کو عوام پر ٹیکس لگانے کے بجائے اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی کرنی چاہیے قرضہ لیکر اربوں روپے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کو بانٹے جائیں گے تو ملک کیسے ترقی کرے گا! ڈیزل اور ایل پی جی کی اسمگلنگ روک کر ٹیکس جمع کریں تو کوئی اور ٹیکس لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی سمگلنگ روکنے میں ناکامی کی ذمہ دار حکومت ہے لیکن حکمرانوں کو اس ناکامی کا بوجھ بھی تنخواہ دار طبقہ ہی اٹھائے گا وزیر خزانہ قوم کو بتائیں کہ وہ جس شدت کے ساتھ ٹیکس لینے کی بات کر رہے ہیں اس کے جواب میں ٹیکس ادا کرنے والوں کو کیا دے رہے ہیں کیا وزیرخزانہ قوم کو بتائیں گے مخصوص شعبوں کو ٹیکس میں رعایت دینے سے خزانے پر پڑنے والا بوجھ کون اٹھائے گا کیا وزیرخزانہ قوم کو بتا سکتے ہیں کہ حکومت اپنے اخراجات کم کیوں نہیں کئے؟ کیوں اربوں کے فنڈز اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کو جاری ہوں گے خون پسینے کی کمائی ٹیکس میں اس لئے جمع کروائی جائے گی کہ وفاقی وصوبائی وزراء اور اراکین اسمبلی اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنا سکیں کیا یہ تنخواہ دار طبقے پر حکومتی ظلم نہیں ہے جو ٹیکس دیتا نہیں حکومت میں اس سے ٹیکس لینے کی طاقت نہیں اور جو ٹیکس دیتے ہیں ان پر مزید بوجھ کے سوا حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں تو پھر یہ نظام حکومت کس کام کا ہے ، بجٹ کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے ابھی تو ابتدا ہے نجانے آگے کیا ہو گا، ہماری حکمرانوں سے اپیل ہے کہ خدارا… ہوش کے ناخن لیں عام آدمی کو اتنا مجبور نہ کیا جائے کہ وہ سڑکوں پر آ جائے غریبوں کی بددعائیں نہ لی جائیں ان کو ریلیف دیا جائے، ایسا طرز حکمرانی قائم کیا جائے جس کے ثمرات عام آدمی کو مل سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں