15

عارف، غوروفکر اور تدبر

سورہ الانبیا میں ارشاد ربانی ہے کہ اگر کائنات ارض وسما میں ایک سے زیادہ رب ہوتے تو یہ کائنات درہم برہم ہوجاتی۔ اگر دنیا کو بھی آنکھیں کھول کر دیکھ لیا جائے تو مذکورہ آیت قرآنی کی صداقت میں کوئی شک نہیں رہے گا۔ ہر طرف اقتدار کی جنگ اور اختیارات کے رولے۔ توسیع پسندی ہر ایک کا خواب۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہم سب کا وطیرہ۔ مطلق العنان حکمران بننا سب کی دیرینہ خواہش حالانکہ کسی نے کہا۔ دنیا سراب۔ کسی نے کہا۔ مکرو فریب۔ کچھ کا خیال ہے۔ کھیل تماشہ۔ بہرحال پانی کا بلبلہ، لمحاتی اور بے ثباتی۔ جب اس کائنات کو دوام ہی نہیں ہے تو پھر یہ تماشہ کیا ہے۔ اس موضوع پر تو بڑے ورقے کالے کئے گئے ہیں۔ ہاں یہ سوال اپنی جگہ بڑا اہم ہے کہ کائنات تخلیق ہوئی اور ابھی تک یہ قائم ودائم ہے حالانکہ اس کے کردار روزانہ کی بنیاد پر ادل بدل رہے ہیں اور اپنا اپنا کردار ادا کرکے بظاہر زمین دوز ہو جاتے ہیں اور وہاں سے کہاں جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر بھی ایک سوال بڑا ہی اہم ہے کہ اس ساری کائنات کی کتنی پرتیں ہیں اور کیا یہ ساری پرتیں ابھی تک ایک ایک کر کے کھل چکی ہیں یا کہ تاحال یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ سوال کرنے والا بھی انسان اور جس سے سوال کیا جارہا ہے وہ بھی انسان۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ اس جہان رنگ وبوکا سب سے اہم کردار بھی انسان ہے۔ جب کہ بظاہر یہ کوئی بہت بڑی طاقتور چیز بھی نہیں ہے۔ سردی میں چیسٹ انفیکشن، گرمی میں ہارٹ اٹیک، بہار میں جنون اور جاڑے میں پت جھڑ اور پت جھڑ کے نتیجے میں مایوسی اور غیر یقینی۔ یقینی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ انسان موضوع قرآن کیوں بنا حالانکہ فطرت کے کرداروں میں تنوع اور سب کردار ایک سے ایک بڑھ کر، ون پونے اور لاجواب۔ ہاں کیڑے مکوڑے بھی ہیں جن کو جب بھی کوئی طاقتور چاہتا ہے مسل دیتا ہے اور پھر ان کی اول تو چیخ تک نہیں نکلنے دی جاتی ہے اور ویسے بھی ان کے ہاں شاید زبان نہیں ہے۔ بے زبان کے بھی تو جذبات واحساسات ہوتے ہیں۔ قوس قزح کے کئی رنگ اور ان رنگوں کے آگے کئی رنگ۔ رنگا رنگ۔ اسی پر تو صوفی کی آنکھیں کھلتی ہیں تو وہ کبھی وحدت الوجود کی بات کرتا ہے اور کبھی وحدت الشہود کی بات کرتا ہے۔ بات ویسے دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے۔ دو مختلف زاویے ہیں اور ایک ہی چیز کے کئی کئی زاویے بھی ہوتے ہیں اسی لئے تو ایک ہی بات سے کئی باتیں نکالی جاتی ہیں بلکہ باتیں بنتی ہیں اور استثنائی صورتحال میں بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے اور یوں بات کہیں سے کہیں چلی جاتی ہے اور پھر تدبر، تفکر اور فلسفہ۔ سب اپنا اپنا زور لگاتے ہیں اور اپنے اپنے لیول کے مطابق تلاش کرتے ہیں کس کو تلاش کرتے ہیں اور کس لئے تلاش کرتے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات ہی نے تو کائنات کی تمام تھیوریز کو جنم دیا ہے اور بحث و تمحیص کا ایک سلسلہ اور وہ بھی لا متناہی سلسلہ جاری ہے اور کب ختم ہوگا یہ ایک نئی بحث ہے۔ تلاش اور وہ بھی کس کی تلاش۔ ہر چیز کی تلاشی لی جارہی ہے اور تلاشی کے نتیجے میں اوہلے اتر رہے ہیں نقاب سرک رہے ہیں اور دامن چاک ہورہے ہیں بلکہ سارے آدم جائے کشمکش کا شکار ہو رہے ہیں۔ شکاری اپنا اپنا وقت پورا کررہے ہیں اور اپنے اپنے حساب سے اعدادوشمار اکٹھے کرکے آگے آگے جا رہے ہیں۔ ” آپےآہو، آپے چیتا اور آپے مارن دھایا”( خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا۔۔۔ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں) کائنات، کائنات کے زندہ وتابندہ کردار، یک رنگی، رنگا رنگی یا بے رنگی، تلاش اور وہ بھی کس کی تلاش۔ یہ تو چلو ہوا سو ہوا یہ محبت درمیان میں کہاں سے آگئی ہے۔ ویسے محبت درمیان میں ہی ہوتی ہے۔ دو دلوں کے درمیان۔ دو کے درمیان جب تیسرا آجاتا ہے تو پھر ہیر، رانجھا اور کیدو کے کردار تخلیق ہوتے ہیں اور وارث شاہ کو قصہ وارث شاہ لکھ کر ہم سب کو فوڈ فار تھاٹ پیش کرنا پڑے گا۔ فوڈ فار تھاٹ آجکل فوڈ فار ہیلتھ کے مقابلے میں مکمل طور پر چت ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سب جسمانی طور پر تو بہت مضبوط ہو گئے ہیں اور ذہنی طور پر انتہائی کم عقل اور کم فہم۔ ایک جھٹکا نہیں سہتے ہیں مایوس، پریشان اور ناامید ہو جاتے ہیں اور شکوہ در شکوہ۔ شکوہ توقعات کے نتیجے کا شاخسانہ ہے اور توقعات بھی بنیادی طور پر دورویہ سڑک ہے جب کہ ہم نے آج تک صرف ایک رویہ سڑک استعمال کرنے کا ڈھنگ سیکھا ہے یہی وجہ ہے کہ ہوا کا شدید ٹھنڈا جھونکا ہمیں مایوس کرنے کے لئے کافی ہے اور پھر مایوسی اور مایوسی بھی آخری لیول کی۔ تلاش کا دروازہ بھی مکمل بند کردیتے ہیں اور اندر بالکل ہی اندر ایک کونے میں بے سدھ پڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے بجائے کسی اور کو دوش دیتے ہیں اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ ہم جس کو دوش دیتے ہیں ہم اس سے بھی پوری طرح واقف نہیں ہوئے( یہ اور بات ہے کہ تعارف نہ ہو سکا۔۔ہم زندگی کے ساتھ بڑی دور تک گئے) دور کی حد کابھی تعین کرنا ابھی باقی ہے اور افسوس ہمارے اعصاب مکمل طور پر جواب دے گئے ہیں۔ کائنات ارض وسما میں کہانی ساری اعصاب کی مضبوطی کی ہے ورنہ۔ ورنہ کچھ بھی نہیں ہے۔ خیر دماغ دینے والے نے اسی لئے دیا ہے کہ وہ بالآخر بول پڑے گا اور ببانگ دہل کہے گا۔ کچھ تو ہے جس کا تذکرہ ہے۔کمال ہے بات تو بڑھتی ہی جارہی ہے حالانکہ اس بات کو کسی ایک طرف تو لگنا ہے۔ طرف کا بھی معاملہ کوئی سادہ نہیں ہے طرف اور اطراف میں بھی فاصلہ۔ اس فاصلے کی پیمائش جریب سے تو ناممکن ہے ہاں گگل کی مدد سے کئے جانے کا امکان ہے۔ امکان کیوں۔ پوری پوری پیمائش کیوں نہیں۔ اس بات کا جواب اب گگل آئندہ آنے والے چند دنوں میں دے گا اور پھر ایک نئی بحث کا آغاز ہو گا اور اصل بات کو تلاش کرنے کی نئے سرے سے کوشش کی جائیگی۔ اصل بات اور اس ساری کہانی کے پیچھے جو “اصل” ہے اس کو تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وہ شاید ابھی تک چھپ کے بیٹھا ہے اور کہیں اوپر اور سب کے اوپر جا کر بیٹھ گیا ہے۔ سیرو فی الارض کی آواز آتی ہے بلکہ آوازیں بھی بہت ساری آجاتی ہیں۔ من عارف نفسہ فقد عارف ربہ۔ کہانی نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے نفس اور رب۔ اب دونوں میں سے ایک کا انتخاب اور انتخاب میں ڈنڈی مارنا بالکل منع ہے۔ انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے اور منصف بھی انا کے گھوڑے سے ٹپوسی مار کے اترے گے اور پھر ہم سب اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہونگے تو اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پائیں گے اور اللہ ہی اللہ ہو گا “دوجا نہ کو”۔ تاہم محبت کی بنیاد پر کائنات ارض وسما کے فیصلے کئے جائیں گے۔ غوروفکر اور تدبر ایک عارف کے لئے بہت ہی ضروری ہے ورنہ وہ جیتے جی جان سے جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں