12

عالمی امن کیلئے پاکستان کی جدوجہد (اداریہ)

پاکستان کا تجربہ دہشت گردی کے حوالے سے نہایت شدید رہا ہے گزشتہ دو دہائیوں میں ملک کو 70ہزار سے زائد جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا جن میں شہری اور سکیورٹی اہلکار دونوں شامل ہیں جبکہ اقتصادی نقصانات سینکڑوں ارب ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں پاکستان نے مسلسل عالمی برادری کے سامنے ان حملوں کے ماخذ ٹھوس شواہد رکھے ہیں اس نے واضح کیا ہے کہ افغان سرزمین سے منظم گروہ کارروائیاں کر رہے ہیں پاکستان بار بار اس امر کی نشاندہی کرتا رہا ہے کہ اگرچہ افغان زمین ان کا کارروائیوں کے فوری لانچ پیڈ ہے لیکن ان کے بے شمار حملوں کی ہدایات اور مالی معاونت بھارت سے جڑے نیٹ ورکس سے آتی ہے فنڈنگ چینلز مواصلاتی ریکارڈز اور ہینڈلرز کی تفصیلات پر مشتمل درجنوں ڈوزیئر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ شیئر گئے مگر اس کے باوجود بیانات تو جاری ہوئے، عملی اقدام سامنے نہ آیا، سفارتی احتیاط’ جغرافیائی سیاست اور معاشی مفادات نے اکثر اخلاقی ذمہ داری کو دبا دیا یہ پیٹرن اس وقت اور بھی واضح ہو جاتا ہے جب پاکستان میں کوئی بڑا ایونٹ ہوتا ہے جب بھی غیر ملکی کھیلوں کی ٹیمیں خصوصاً کرکٹ ٹیمیں پاکستان آتی ہیں اسی دوران مشکوک طور پر منظم دہشت گرد حملوں کی کوششیں سامنے آتی ہیں ان حملوں کا مقصد جانی نقصان نہیں بلکہ پاکستان کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچانا ہوتا ہے یہ محض اتفاق نہیں کہ ایسے حملے اس وقت بڑھتے ہیں جب پاکستان سفارتی یا معاشی پیٍش رفت کر رہا ہوتا ہے برسوں کے تجربے اس امر کو واشگاف کر دیا ہے کہ ایک اسٹریٹجک ارادہ موجود ہے جس میں پاکستان کو غیر مستحکم’ تنہا اور دبائو میں رکھنا شامل ہے حالات کے تقاضوں کے تحت پاکستان نے اندرونی طور پر مشکل فیصلے کئے جن میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی واپسی بھی شامل ہے یہ فیصلہ کسی جذباتی ردعمل کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ قومی سلامتی کے تقاضوں اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق تھا کہ غیر دستاویزی افراد کو آخرکار اپنے اسٹیٹس کو درست کرنا یا وطن واپس جانا ہوتا ہے گزشتہ برسوں میں ہونے والے متعدد حملوں میں ایسے افراد شامل تھے جو غیر قانونی طور پر سرحد پار کر کے آئے یا پناہ گزینوں کی نقل وحرکت کو بطور ڈھال استعمال کیا پاکستان کے قانونی اور منصفانہ اقدامات کے موقع پر بھارت نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غلط معلومات پھیلانے اور خفیہ ذرائع سے پاکستان مختلف سرگرمیوں کو بڑھانے کی کوشش کی افسوس کہ عالمی نظام نے بھی زیادہ تر رسمی افسوس تک ہی خود کو محدود رکھا پاکستان نے ہمیشہ عالمی امن کے حوالے سے جدوجہد کی مگرعالمی طاقتوں اور دیگر ممالک نے پاکستان کی کوششوں کو مکمل طور پر سپورٹ کرنے کی بجائے ڈنگ ٹپائو کی پالیسی اختیار کئے رکھی اب جبکہ امریکہ’ تاجکستان میں دہشت گردی کے حملے ہوئے تو عالمی طاقتوں کو اس بات کا اندازا ہوا کہ پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے بار بار عالمی قوتوں کو آگاہ کرتا رہا ہے اگر اس کا عالمی سطح پر نوٹس لیکر دہشت گردی کا سدباب کیا جاتا تو دہشت گردوں کے حوصلے اتنے نہ بڑھتے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد امریکی ہتھیار افغان طالبان کے ہاتھ لگ گئے اور اس سے انتہاپسندی کو فروغ مل رہا ہے دہشت گرد گروہوں کا راستہ روکنے کیلئے دنیا کی ذمہ داریاں ہیں کہ وہ ایک سنجیدہ منظم اور قابل نافذ عالمی ایجنڈا تشکیل دے پاکستان کا موقف ہمیشہ اصولی اور واضح رہا ہے۔ وہ دہشت گردی کی ہر شکل میں مذمت کرتا ہے چاہے وہ مشرق میں ہو یا مغرب میں، فرد کی جانب سے ہو یا منظم نیٹ ورک کی صورت میں، دہشت گردی کہیں بھی ہو خطرہ ہر جگہ بن جاتی ہے۔ اس کو شکست دینے کیلئے متحد ہو کر مقابلہ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں