وطن عزیز میں اس وقت مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے عام آدمی کی زندگی بمشکل گزر رہی ہے اشیائے خوردونوش کے نرخ اتنے بڑھ چکے ہیں کہ غریب آدمی حسرت سے انہیں دیکھتا رہتا ہے خریدنے کی قوت نہیں رہی حکومت عوام کو تسلیاں دینے میں لگی ہوئی ہے وقت تیزی سے گزر رہا ہے مگر مہنگائی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی حکومت کے دعوے جھوٹے ہیں کیونکہ مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکا وسائل سے محروم افراد کے ساتھ ناانصافیاں جاری ہیں حکومت عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کے وعدے تو کرتی ہے مگر اس پر عملدآمد نہیں ہو رہا’ حکومت کے پاس آئین قانون کی طاقت موجود ہے انتظامیہ عملدرآمد کے لیے موجود ہے اس کے باوجود مہنگائی کا خاتمہ کرنے میں ناکام کیوں ہے یہ سوال ہر آدمی کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے مگرا س کو اس سوال کا جواب نہیں مل پاتا، واقعی یہ سوال بہت اہم ہے کہ حکومت طاقت رکھنے کے باوجود ملک میں موجود بحرانوں’ مہنگائی’ بدعنوانی’ لاقانونیت اور دیگر مسائل سے نمٹنے میں ناکام کیوں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت عام آدمی کی زندگی میں سہولت پیدا کرنا چاہتی ہو اور اسے کامیابی نہ ملے حکومت ناجائز منافع خوری کا خاتمہ چاہتی ہو اشیاء خوردونوش کی بلاتعطل فراہمی چاہتی ہو تو اس کی راہ میں کوئی شے رکاوٹ بن سکتی ہے؟ جب بھی ملک میں مہنگائی بے لگام ہوتی ہے حکومتی وزراء اور مشیر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ مصنوعی مہنگائی مافیا سرگرم ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہنگائی مافیا حکومت کی نظروں سے اوجھل کیسے ہے کیا اس کے ادارے سو رہے ہیں! گذرے دنوں میں جو لوگ مہنگائی کو مصنوعی مہنگائی قرار دیتے تھے یا پھر مہنگائی پر قابو پانے کے بجائے اسے ناجائز منافع خوری کا نام دیکر اپنی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے یا پھر مہنگائی کو میڈیا کی منفی رپورٹنگ کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے تھے یا پھر اس معاملے کو اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتے تھے بدقسمتی سے آج وہ لوگ بھی مہنگی بجلی اور مہنگائی کیخلاف احتجاج کا حصہ بن رہے ہیں اور لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں وسائل سے محروم افراد کو گھروں سے نکلنے کی ترغیب دے رہے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ حکومت میں تھے انہوں نے مہنگائی پر قابو پانے اور عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کیلئے کیا کیا تھا! دراصل پاکستان میں حکمرانوں کے اردگرد جو بااثر افراد شخصیات ہیں وہ حکمرانوں کو عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کی جانب توجہ ہی نہیں دینے دیتیں مراعات یافتہ طبقے نے حکمرانوں کے گرد ایسا جال بُن رکھا ہے کہ جو کوئی بھی حکومت میں آتا ہے وہ ان کے جال سے نکل نہیں پاتا، ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کیلئے سرگرم ہیں ان سب کو اپنی اپنی سیاست پیاری ہے ریاست اولین ترجیح ہو تو ریاست کو مضبوط کرنا سب کا مقصد ہو عوامی مسائل کو حل کرنا اہم ہو تو ہی عام آدمی کی زندی بہتر بتائی جا سکتی ہے ہمارے حکمران اپنی لڑائیوں میں لگے ہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کے گریبان تک ہاتھ ڈالنا عام سی بات بنتی جا رہی ہے پارلیمنٹ جسے اہم ترین فورم قرار دیا گیا ہے اس میں قومی مسائل کے حل اور قانون سازی کے بجائے شور شرابہ کی ریت چل پڑی ہے اپوزیشن حکومت کو چلنے نہیں دیتی اور حکومت آئندہ 5سال کی مدت کیلئے منصوبے بناتی رہتی ہے الیکشن کے شفاف ہونے کا کوئی سیاست دان یقین نہیں کرتا ہارنے والا کہتا ہے کہ اس کے ساتھ دھاندلی ہوئی الیکشن کمیشن پر سیاسی جماعتیں اعتماد کرنے کیلئے نہیں حکمرن اپنی لڑائیوں میں مصروف ہیں عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں عام آدمی کی حالت بد سے بدتر ہو رہی ہے مگر اس جانب حکمرانوں کی نظر نہیں جا رہی ہے بے چارہ عام آدمی اپنی زندگی کتنی مشکل سے گذار رہا ہے اس کی حکمرانوں کو پرواہ نہیں وزیراعظم اور ان کی کابینہ جہاں اتنے بڑے فیصلے کرتے ہیں وہاں ان کو عام آدمی کی زندگی کا جائزہ لے کر ان کے لیے بھی مؤثر اور فوری فیصلے کر کے ان کے لیے ریلیف کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ پسا ہوا یہ طبقہ بھی سر اٹھا کر جی سکے۔
