چیف جسٹس اختیارات محدود کرنے کیلئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر میں ترمیم کا بل ایوان میں پیش کر دیا گیا ہے، ازخود نوٹس چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا سپریم کورٹ میں بینچز کی تشکیل چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی کرے گی کمیٹی میں سپریم کورٹ کے دو سینئر جج شامل ہوں گے اور کمیٹی کے فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوں گے مجوزہ بل میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 184 شق3 کے تحت ازخود نوٹس کا معاملہ پہلے کمیٹی کے سامنے جانچ کیلئے رکھا جائے گا کمیٹی معاملے کو بنیادی حقوق کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سمجھے تو کم ازکم تین رکنی بنچ تشکیل دیا جائے گا آرٹیکل 184(3) کے تحت اختیار استعمال کرنے والے بنچ کے حتمی حکم سے 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جا سکے گی اپیل کو لارجر بنچ کے سامنے زیادہ سے زیادہ 14 دن کے اندر سماعت کیلئے مقرر کیا جائے گا بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی درخواست دائر کرنے کیلئے فریق کو پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق حاصل ہو گا،، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون وانصاف کا اجلاس آج ہو رہا ہے جس میں عدالتی اصلاحات ترمیمی بل کی منظوری دی جائے گی قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عدالتی اصلاحات ترمیمی بل کا مسودہ کابینہ نے منظور کر لیا وزیراعظم نے چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کیلئے قومی اسمبلی سے قانون سازی کا مطالبہ کر دیا اور کہا کہ 2 ججز کا فیصلہ امید کی نئی کرن ہے قانون سازی نہ کی تو مؤرخ ہمیں معاف نہیں کرے گا، عمران معافی مانگے پھر مذاکرات ہو سکتے ہیں،، علاوہ ازیں وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں خطاب میں کہا کہ ہمارے ہاتھ باندھ کر عدالتوں میں کھڑا کیا جاتا ہے اعلیٰ عدالتوں کے کتنے جج کرپشن پر نکالے گئے، پچھلے سال ہم اپوزیشن میں تھے مختلف الخیال سیاسی جماعتوں نے آئین کے مطابق عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا اور اپنی سیاست پر دائو پر لگا دیا یہ پوری قوم کے لیے ایک سبق تھا آئین نے اختیارات کی تقسیم واضح کر دی مقننہ عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات بیان کر دیئے، ریڈلائن لگا دی کہ کوئی اس کو عبور نہ کر سکے گا بعد میں تاریخ کے واقعات کیا کیا ہوا سب کے سامنے ہے آج اس آئین کا مذاق اڑایا جا رہا ہے آئین میں موجود مقننہ کے اختیارات عدلیہ کے اختیارات کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں ہم ہر فیصلہ کابینہ میں کرتے ہیں تمام اداروں کو بھی اپنی کابینہ کی مشاورت سے کرنا چاہیے ایک آڈیو لیک میں سپریم کورٹ کے ججز کی گفتگو سامنے آئیں نہیں جانتا کہ آڈیو سچی سے یا جھوٹی سپریم کورٹ آڈیو کا فرانزک ٹیسٹ کروا کر حقائق سامنے لائے جو آئین وقانون نہ مانے اس سے بات نہیں ہو سکتی،، قومی اسمبلی نے عدلیہ سے متعلق قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی یہ قرار داد وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پیش کی تھی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ یہ ایوان مقننہ میں عدلیہ کی مداخلت کو مسترد کرتا ہے ایوان تمام اسبملیوں کے انتخابات ایک ہی وقت کرانے کا مطالبہ کرتا ہے قرار داد کے متن کے مطابق انتخابات سے متعلق کیس میں چار تین کے تناسب سے فیصلے کی ایوان تائید کرتا ہے یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے الیکشن کمیشن میں عدلیہ مداخلت نہ کرے الیکشن سے متعلق مقدمات کی سماعت فل کورٹ کرے قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایوان توقع رکھتا ہے اعلیٰ عدلیہ سیاسی وانتظامی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے تمام اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت غیر جانبدار نگران حکومتوں کے تحت ہونے چاہئیں وہ دستوری معاملات جن میں اجتماعی دانش درکار ہو ان کی سماعت عدالتی عظمیٰ کا فل کورٹ کرے قومی اسمبلی نے قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی پاکستان بار کونسل کا کہنا ہے کہ الیکشن پر ازخود نوٹس سیاسی معاملہ ہے آئین کی بالادستی’ رول آف لاء کیلئے اعلیٰ عدلیہ کو سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ازخود نوٹس کے اختیار سے متعلق رولز بنائے جائیں عدلیہ کی ساکھ برقرار رکھنے کیلئے کمیٹیاں بنا کر بینچز تشکیل دیئے جائیں بدقسمتی سے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس سیاسی معاملے پر کیا گیا ازخود نوٹس لینے سے اختلافی فیصلہ سامنے آیا جس سے عدلیہ کا وقار کم ہوا،، وزیراعظم کا چیف جسٹس کے اختیارات میں کمی کیلئے قومی اسمبلی سے قانون سازی کا مطالبہ، پاکستان کونسل کا الیکشن پر ازخود نوٹس کیلئے کمیٹیاں بنا کر بینچز تشکیل دینے کا مطالبہ سامنے آنے کے بعد قومی اسمبلی میں چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر میں ترمیمی کا بل ایوان میں پیش کر دیا گیا ہے ازخود نوٹس چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی یہ بل وفاقی کابینہ نے منظور کر لیا ہے اب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی عدالتی اصلاحات ترمیمی بل کی منظوری دے گی پھر مجوزہ بل کل جمعرات کو سینیٹ میں منظوری کیلئے بھیجا جائے گا جس کو سینیٹ کی حمائت حاصل ہونے کے بعد یہ قانون کا درجہ اختیار کرے گا پھر ازخود نوٹس کیلئے ایک طریقہ کار بن جائے گا اور کسی سیاستدانوں کو اس طریقہ سے شکائت نہیں رہے گی ملک کے موجودہ سیاسی بحران’ معاشی ابتری’ میں نہ مانوں کے سیاسی ماحول میں عدل وانصاف کیلئے عوام کی نگاہیں عدلیہ پر لگی ہیں اگر عدالتی عمل بھی متنازعہ ہوتا ہے تو جمہوریت اور ملک کا مستقبل خدشات اور تفکرات کو جنم دے گا یہ تاثر نہیں ہونا چاہیے کہ دوسرے قومی اداروں کی طرح عدلیہ بھی تقسیم کا شکار ہے بگڑے ہوئے حالات اور آئین وقانون کی حکمرانی کا تقاضا ہے کہ حساس معاملات پر سپریم کورٹ کا فل بینچ ہی کرے اور جن کمزوریوں کی 2 فاضل ججوں نے اپنے فیصلے میں نشاندہی کی انہیں دور کرنے کیلئے فل کورٹ بیٹھے اور مکمل اتفاق رائے سے قانونی لائحہ عمل مرتب کر کے اس پر عمل کرے فاضل ججوں نے اپنے فیصلے میں درست نشاندہی کی ہے کہ ایک جمہوری ملک کی سپریم کورٹ پر شاہی عدالت ہونے کا گمان نہیں ہونا چاہیے جس میں بادشاہ کا فرمان ہی حرف آخر ہوتا ہے جبکہ جمہوریت میں عوام کی منتخب پارلیمنٹ کا منظورشدہ آئین ہی بالادست سمجھا جاتا ہے اور اب اگر پارلیمنٹ نے عدالتی اصلاحات کیلئے قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے تو قانون سازی کے بعد عدلیہ کو قانون کی بالادستی یقینی بنانی چاہیے۔
34