چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ 25اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مشکلات ہونگی البتہ اس سے قبل ترامیم ہوئیں تو 19 ویں ترامیم جیسی مشکلات نہیں ہونگی اور اگر عمران خان کا ملٹری ٹرائل کرنا ہے تو ثبوت لانا ہو گا، آئینی ترامیم نہ ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے حالات پھر شائد کسی کے کنٹرول میں نہ رہیں انہوں نے کہا کہ سیاستدان واپس سیاست کے دائرے میں آئیں کون بنے گا وزیراعظم کا کھیل ختم کریں کون بنے گا آرمی چیف کون نہیں یہ کھیل بھی ختم ہو، بلاول بھٹو نے اسلام آباد میں سپریم کورٹ رپورٹر کے سوال کے جواب میں کہا کہ عمران کے ملٹری ٹرائل بارے کہا کہ ابھی تو یہ دیکھنا ہے کہ شواہد کیا ہیں ویسے بھی صدارتی معافی کا اختیار ہمارے پاس ہے پیپلزپارٹی سزائے موت کے خلاف ہے انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت کے معاملے کو ایسے نہیں چھوڑیں گے اس کو پائیہ تکمیل تک پہنچائیں گے ہم پہلے ہی بہت تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں” موجودہ حالات میں حکومت اور اپوزیشن میں ایک بار پھر گرما گرمی چل رہی ہے اتحادی حکومت آئینی ترامیم کے لیے سرگرم ہے تاہم قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمبر آف گیم میں کمی کے باعث اتحادی حکومت کو کامیابی نہ مل سکی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی سپریم کورٹ کے ججوں کی عمر بڑھانے یا آئینی عدالت کے قیام کی ان کی وہ ابتدائی تجویز اب ختم کر دی گئی ہے اس کا مقصد ایک ہی ہے کسی جج یا ججوں کو موجودہ نظام کو خطرہ بننے یا سیاسی عدم استحکام بننے سے روکنا ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کا مقصد موجودہ چیف جسٹس کے تسلسل کو یقینی بنانا تھا’ جو جسٹس منصور علی شاہ کی چیف جسٹس کے طور پر تین سال تک ترقی میں تاخیر کر دیتا، اب زور ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر ہے، اگر یہ مقصد حاصل ہو گیا تو حکومتی اتحاد یا اسٹیبلشمنٹ میں سے کوئی بھی جسٹس منصور علی شاہ کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر تقرری پر اعتراض نہیں کرے گا، آئینی عدالت کے قیام کے بعد سپریم کورٹ کو آئینی اور سیاسی مقدمات سننے کا اختیار نہیں ہو گا جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کردہ مخصوص نشستوں کے مقدمے میں سنائے گئے 12جولائی کے فیصلے کو موجودہ نظام کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا ہے جسے اسٹیبلشمنٹ’ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل ہے، تینوں سیاسی استحکام جاہتے ہیں اور فکرمند ہیں کہ عدلیہ کی جانب سے کوئی مہم جوئی’ معیشت کو نقصان پہنچا سکتی ہے، جو اب بہتری کے آثار دکھا رہی ہے، مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد، جو 8ججوں نے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں فل کورٹ میں سنایا پی ٹی آئی اور اس کے بانی عمران خان نے شہباز حکومت کے خاتمے اور اکتوبر 2024ء کے آخری ہفتے میں نئے چیف جسٹس کی آمد کے بعد پی ٹی آئی حکومت کے قیام کی باتیں شروع کیں، دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کو تشویش ہونے لگے کہ آٹھ فروری کے انتخابات کے تنازعات جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ پی ٹی آئی کے حق میں چلی جائے گی، مخصوص نشستوں کے فیصلے نے طاقت کے مراکز کو بھی پریشان کر دیا، سپریم کورٹ کے 12جولائی کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں اصلاحات کے لیے آئینی ترمیمی پیکج کو پاس کرنے میں حالیہ ناکامی کے بعد ممکنہ طور پر اگلے ہفتے اب دوبارہ کوشش کی جائے گی قومی اسمبلی میں (ن) لیگ کے چیف وہپ طارق فضل چوہدری کے مطابق حکومت کے پاس پلان اے اور پلان بی ہیں ان کے مطابق پلان اے کے تحت ہدف مولانا فضل الرحمان کی حمایت سے آئینی پیکج منظور کرایا جائے گا اگر ایسا نہیں ہوتا تو پلان بی پر عمل ہو گا بی پلان بارے طارق فضل نے نہیں بتایا کہ وہ کیا ہو گا، (ن) لیگ نے آئینی پیکج میں ناکامی کے بعد اب یہ معاملہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کے حوالے کر دیا ہے تاکہ آئینی پیکج کے حوالے سے زمین ہموار کی جا سکے جو کہ اب آئینی عدالت پر مرکوز ہے بلاول بھٹو زرداری اور پیپلزپارٹی کے دیگر راہنما اس وقت آئینی عدالت اور عدلیہ میں دیگر اصلاحات کے حق میں ایک بھرپور مہم چلا رہے ہیں بلاول بھٹو ملک کے مختلف حصوں میں وکلاء کے اداروں سے خطاب کر رہے ہیں وہ اصرار کرتے ہیں کہ سب کو وفاقی آئینی عدالت کو قبول کرنا ہو گا جس میں تمام صوبوں کی نمائندگی ہو گی بلاول بھٹو نے کہا کہ عدالتی نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں اور وہ اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک عدالت قائم نہیں ہو جاتی،’ بلاول بھٹو اتحادی حکومت کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اتحادی حکومت عدالتی نظام میں اصلاحات کے حوالے سے ترامیم منظور کرانے میں کامیاب ہو جائے گی تاہم اس حوالے سے جے یو آئی (ف) کو بھی قائل کرنا ناگزیر ہے۔
