کراچی(بیوروچیف)تجزیہ نگارعلینہ فاروق شیخ کے سوال وفاقی کابینہ نے عدالتی اصلاحات ترمیمی بل کا مسودہ منظور کرلیا، کیا حکومتی اقدام درست ہوگا؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں’ ارشاد بھٹی نے کہا کہ عدالتی اصلاحات ترمیمی بل اسی نیک نیتی سے منظور کیا گیا ہے جس نیک نیتی سے ای وی ایم اور نیب ختم کیا گیا، عدلیہ کو تقسیم کیا جاچکا ہے یہ بل بھی عدلیہ پر دبائو ڈالنے اور ترازو کا پلڑا برابر رکھنے کی کوشش لگتی ہے، یہ ترمیم اس اخلاقی برتری والی اسمبلی سے ہورہی ہے جس میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نہیں ہے اور اپوزیشن لیڈر راجا ریاض ہیں’ پی ڈی ایم کل تک اسی اسمبلی کو جعلی مینڈیٹ والا کہتی تھی، عجیب معجزوں بھرا وقت چل رہا ہے کہ کیس پانچ رکنی بنچ سنتا اور فیصلہ کرتا ہے مگر پچیس دن بعد یہ بنچ سات رکنی ہوجاتا ہے، اقلیتی رائے رکھنے والے دو جج صاحبان بنچ سے علیحدہ ہوچکے ہوتے دو جج صاحبان کو ملا کر کہتے ہیں ہم اکثریتی ہیں،منیب فاروق کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار پر نظرثانی ہونی چاہئے تھی، سپریم کورٹ کو تقسیم نہیں کیا گیا اعلی عدلیہ میں تقسیم پہلے سے موجود ہے’ چیف جسٹس کچھ سینئر ججوں کو اپنے ساتھ بنچ میں بٹھانا پسند نہیں کرتے، پارلیمان قانون بناتی ہے جس پر سپریم کورٹ میں سوال اٹھ جاتے ہیں، تاریخ موجود ہے کہ پارلیمان نے قانون بنایا جسے سپریم کورٹ نے اسٹرائیک ڈاون کردیا، پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت سے بچانے کیلئے توہین عدالت ایکٹ بنایا جسے سپریم کورٹ نے اسٹرائیک ڈاون کردیا تھا۔سلیم صافی نے کہا کہ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیار پر نظرثانی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان برابر حیثیت رکھتے ہیں’ سپریم کورٹ اپنے ساتھی جسٹس شوکت صدیقی کو آج تک انصاف نہیں دے سکا، کیا وجہ ہے کہ تمام سیاسی معاملات میں تین چار مخصوص ججوں پر مشتمل بنچ بنتا ہے، سینئر ترین جج کو ایسی بنچوں میں شامل ہی نہیں کیا جاتا ہے، عدالتوں میں سیاسی معاملات آنے سے ججوں کا وقار متاثر ہوتا ہے۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں، ترازو کا توازن قائم کرنے میں کہیں ترازو ہی نہ ٹوٹ جائے۔
48