26

عوامی مسائل نظر انداز ‘ سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے میں مصروف

اسلام آباد(بیوروچیف)حکومت ہو یا اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاست دان؛ دونوں نے گزشتہ چند برسوں کے دوران صرف دو ہی ایسے موقعے تھے جن میں اتحاد کا بے مثال مظاہرہ کیا ہے، لیکن یہ لوگ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے مل بیٹھنے کو تیار نہیں۔ 2019 میں پی ٹی آئی کی زیر قیادت حکومت نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع دی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس وقت حیران کن انداز سے مداخلت کرتے ہوئے ایسا قانون لانے کا مطالبہ کیا تھا جس میں اس نوعیت کی توسیع کی اجازت ہو۔اس وقت پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی حکومت کی مدد کرنے والی جماعتوں میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی شامل تھیں۔ قانون سازی کی گئی اور اس طرح آرمی چیف جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع ملی۔ اب نہ صرف یہی تین جماعتیں فوج میں اس طرح کی توسیع کے مخالفت کر رہی ہیں بلکہ جنرل باجوہ کو دی گئی توسیع کے بعد یہ تینوں جماعتیں مختلف اوقات میں اعتراف کر چکی ہیں کہ یہ غلط فیصلہ تھا۔ 2022 میں موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے تمام اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف لگانے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ آرمی چیف کے تقرر میں مجاز اتھارٹی وزیراعظم ہی ہیں لیکن اس مخصوص کیس میں صدر عارف علوی اسلام آباد سے اڑ کر لاہور پہنچے تاکہ زمان پارک کی رہائش گاہ میں قیام پذیر اپنی پارٹی کے سربراہ عمران خان سے مشورہ کر سکیں۔اگرچہ قانونا اس کی ضرورت نہیں تھی، لیکن پی ٹی آئی نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ عمران خان نے جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف لگانے کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ جنرل باجوہ کیلئے توسیع کے کیس میں نون لیگ کی جانب سے قانون سازی کی حمایت کے فیصلے کو نواز شریف کے نعرے ووٹ کو عزت دو کا انحراف سمجھا گیا۔نواز شریف نے یہ نعرہ 2017 میں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد اختیار کیا تھا۔نواز شریف اور مریم نواز کھل کر جنرل باجوہ اور دیگر پر نواز شریف کو وزارت عظمی کے عہدے سے ہٹوانے اور سیاست سے تاحیات نا اہل قرار دلوانے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود صرف اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کیلئے نون لیگ نے جنرل باجوہ کو توسیع دینے کی قانون کی حمایت کی۔جنرل عاصم منیر کے معاملے میں دیکھیں تو عمران خان کو پہلے تحفظات تھے۔ لیکن جب وزیراعظم نے انہیں آرمی چیف لگانے کو فیصلہ کیا تو عمران خان نے بھی اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کیلئے اس فیصلے کی تائید کی۔آرمی چیف کے تقرر یا توسیع کے معاملے کے برعکس، ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ بیحد اہم معاملہ ہے۔ پاکستان ممکنہ ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے اور اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں مل بیٹھیں اور ملک کو سری لنکا بننے سے بچائیں۔ لیکن یہ لوگ مل بیٹھنے کو تیار نہیں کہ میثاق معیشت تیار کرکے ملکی معیشت کی بنیادوں کو ٹھیک کیا جا سکے، نہ ہی یہ لوگ معیشت کی قیمت پر سیاست سے باز آتے ہیں۔اس کی بجائے دونوں نے بندوقوں کا رخ ایک دوسرے کی جانب کر رکھا ہے اور خود کو ایک دوسرے کا دشمن سمجھتے ہیں۔ سیاست دانوں کے ایسے رویے کی وجہ سے ملک کو شدید نقصان ہو رہا ہے اور ساتھ ہی عوام کو بھی۔معاشی بحران کے علاوہ، اب ملک کو ایک آئینی بحران کا سامنا ہے کیونکہ اب یہ خدشات پیدا ہو چکے ہیں کہ پنجاب اور کے پی میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 دن بعد الیکشن ہونگے یا نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکمران اتحاد پی ڈی ایم کو الیکشن یا الیکشن کی تاریخ پر بحث میں کوئی دلچسپی نہیں جبکہ عمران خان کی پی ٹی آئی معیشت پر بات کیلئے تیار نہیں، اور اقتدار میں آنے کیلئے جلد الیکشن چاہتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں