19

عوامی مسائل کا حل بلدیاتی نظام سے ہی ممکن! (اداریہ)

دنیا بھر کے جمہوری طرز پر چلنے والے ممالک میں بلدیاتی نظام تسلسل کے ساتھ چل رہا ہے اور نچلی سطح پر عوامی مسائل کے حل کیلئے اس نظام سے استفادہ حاصل کیا جا رہا ہے پارلیمنٹ کا کام قانون سازی جبکہ بلدیاتی نظام کے تحت اس پر عملدرآمد کرانا بلدیاتی نظام سے جڑے افراد کا کام ہے اور یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ عام آدمی کے مسائل اس کی دہلیز پر اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک مؤ ثر بلدیاتی نظام رائج نہ کیا جائے جس میں اختیارات ووسائل یونین کونسل کی سطح پر تفویض کئے گئے ہوں، بدقسمتی میں بلدیاتی نظام کو تسلسل سے چلنے نہیں دیا جاتا یہی وجہ ہے کہ عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے کیونکہ عوامی مسائل کا حل بلدیاتی نظام سے ہی ممکن ہے پاکستان کے چاروں صوبوں میں صوبائی حکومتوں کی مرضی سے بلدیاتی نظام لایا جاتا ہے اگر سندھ میں بلدیاتی نظام چل رہا ہے تو پنجاب میں یہ غیر فعال ہے اگر بلوچستان میں یہ نظام قائم ہو تو KPمیں غیرفعال ہوتا ہے وفاقی حکومت کے زیرانتظام آزاد جموں وکشمیر میں بلدیاتی نظام بھی وہاں کی حکومتوں کی من مرضی سے ہی چلتا ہے جو لمحہ فکریہ سے کم نہیں دنیا بھر میں بلدیاتی نظام سے عوامی مسائل حل کرنے کے کامیاب تجربات سامنے آ چکے ہیں مگر ہمارے ہاں جو بھی صوبائی حکومت آتی ہے وہ اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کرنے کیلئے نظام میں تبدیلیاں کرتی ہے اور یوں بلدیاتی نظام تجربات کی نذر ہو جاتا ہے یہ بات سیاسی قیادتوں کو سمجھ آ جانی چاہیے کہ بلدیاتی نظام کو جتنا غیر فعال رکھا جائے گا عوامی مسائل اتنے ہی بڑھیں گے اور جو کام بلدیاتی نمائندے کرتے ہیں وہ یا تو ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہو گی یا پھر صوبائی اسمبلی کے ممبران کی زیرنگرانی کرا کے جائیں گے جو درست اقدام نہیں آئین میں متفقہ ترمیم کے تمام صوبائی حکومتوں کو پابند کیا جانا چاہیے کہ ہر صورت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بروقت ہو اور ان میں کسی قسم کی تاخیر کی آئینی اجازت نہ ہو ملک میں سب سے بہترین بلدیاتی نظام سابق صدر مشرف کے دور میں تھا جس میں ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام کرائے گئے اس دور میں اراکین قومی اسمبلی نے مستعفی ہو کر ضلع نظام بن کر اپنے علاقے کی خدمت کرنے کو ترجیح دی، یہاں سیاست وجمہوریت کو دولت کے ہاتھوں محصور کر دیا گیا ہے اختیارات کی نچلی سطح تک منصفانہ تقسیم سے وفاقی وصوبائی حکومتیں بہت سے مسائل سے آزاد رہتی ہیں دنیا بھر میں کامیاب ترین طرز حکومت اور یونین کونسل کی سطح پر نمائندے منتخب کر کے عوام کے اکثر مسائل کو ان کی دہلیز پر حل کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے جو بڑی خدمت ہے، جمہوریت کی علمبردار بڑی سیاسی جماعتیں کہنے کو تو جمہوریت رائج کرنا چاہتی ہے مگر عملی طور پر جمہوری ڈکٹیٹرشپ رائج ہے بڑی سیاسی جماعتیں اپنا الیکشن ہی نہیں کراتیں بلکہ پارٹیوں کو اپنی ذاتی جاگیر کے طور پر چلایا جا رہا ہے تو یہ لوگ ملک میں حقیقی جمہوریت کس طرح رائج کر سکتے ہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ چاروں صوبائی حکومتیں بلدیاتی نظام کو مضبوط بنائیں اور بلدیاتی نمائندگان کو مکمل اختیارات تفویض کئے جائیں تاکہ عام آدمی کو اپنے حلقہ کے نمائندے کی وساطت سے سرکاری کام نمٹانے کیلئے آسانی ہو اور اس کے مسائل فوری حل ہو سکیں چاروں صوبائی حکومتوں کو اس سلسلے میں سوچنا چاہیے اور بلدیاتی نظام کے تسلسل میں رکاوٹیں نہیں ڈالنی چاہئیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں