31

عوام مہنگائی سے پریشان ‘ حکمران ارکان اسمبلی پر مہربان

اسلام آباد’ لاہور (نمائندگان) پاکستان مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے مالیاتی مشکلات کا حوالہ دے کر پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی)میں ایک بار پھر79ارب روپے کی کٹوتی کردی جس کے بعد اس کا حجم566 ارب85کروڑ روپے ہوگیا۔اس کے برعکس اتحادی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کے لیے فنانسنگ87ارب سے بڑھا کر90ارب روپے کردی، جنہیں ترقیاتی فنڈز میں سے سب سے زیادہ رقم ملی۔پی ایس ڈی پی کے تحت ملک بھر میں ترقیاتی اسکیموں پر رقم خرچ کی جاتی ہے، بجٹ2022-23میں میں اس مد میں 800 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی تھی لیکن مالی سال ختم ہونے سے ایک مہینے قبل اسے کم کرکے 566 ارب 85 کروڑ روپے کر دیا گیا۔پہلے ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص رقم کم کرکے 645 ارب 92 کروڑ، اس کے بعد 566 ارب 85 کروڑ روپے کر دی گئی، جبکہ پی ایس ڈی پی میں کل 233 ارب روپے کی کٹوتی کی گئی۔ علاوہ ازیںاپریل میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹس گذشتہ سال کی نسبت 29اعشارہ22 فیصد تک کم ہو کر1ارب23کروڑ20لاکھ ڈالر تک رہ گئیں۔ صنعتکاروں کا انڈسٹری چلانا دشوار ہو گیا۔ انڈسٹری ذرائع کے مطابق گذشتہ ماہ دھاگہ اور گارمنٹس کی ایکسپورٹ میں 34 فیصد ،کاٹن کلاتھ ایکسپورٹ میں 18 فیصد اور تولیہ کی ایکسپورٹ میں 26 فیصد تک کمی ہوئی جس سے فیکٹریوں میں 50 فیصد کام بندکردیا گیا۔روزبروز کی ہنگامہ آرائی اور بدلتی سیاسی صورتحال نے ملکی ایکسپورٹ کو بھی بریک لگا رکھی ہے ایک طرف صعنتکار پریشان ہیں تو دوسری طرف مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔ چیئرمین پی ایچ ایم اے خواجہ امجد کا کہنا ہے کہ ہم بھی پریشان ہیں اور ہمارے خریدار بھی وہ سمجھتے ہیں اس ملک میں سیاسی کھینچاتانی کی وجہ سے یہ انکے لئے محفوط نہیں ہے۔ پہلے تین شفٹیں چلتی تھیں اب ایک بھی بہت مشکل سے چل رہی ہے، کام نہیں مل رہا مہنگائی کی وجہ سے دال ، گھی چینی ، ہر چیز کو آگ لگی ہے۔ روئی کی عدم دستیابی اور درآمدات کے لیے ایل سی(LCs)پر پابندیوں نے بھی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی برآمدات کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس سے پورے شعبے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری پھیل رہی ہے۔ یہ مسئلہ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما)نے اپریل میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)کے گورنر جمیل احمد کو بھیجے گئے ایک خط میں اٹھایا تھا۔ ایسوسی ایشن نے متنبہ کیا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے کیونکہ اس کی پیداوار اور آمدنی صلاحیت سے بہت کم ہے۔ ایسوسی ایشن نے اسٹیٹ بینک کے گورنر پر زور دیا کہ وہ روئی کی درآمد کے لیے ایل سیز کھولنے کی اجازت دیں، یہ بتاتے ہوئے کہ درآمدی کنسائنمنٹ بندرگاہوں پر پھنس گئے ہیں، جنہیں ترجیحی بنیادوں پر جاری کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن تا حال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں