عیدالفطر خوشیوں بھرا تہوار ہے، فرزندان اسلام ہر سال رمضان المبارک کے بعد یکم شوال المکرم کو عید مذہبی جوش وخروش سے مناتے ہیں، رمضان المبارک کو نیکیوں کا موسم بہار کہا جاتا ہے، الحمدﷲ! اس مقدس مہینے میں مساجد نمازیوں سے بھر جاتی ہیں اور قرآن پاک کی تلاوت کر کے بھی روحانی سکون حاصل کیا جاتا ہے، بلاشبہ! قرآن پاک پڑھنا، سننا بہت بڑی خوش بختی ہے، مساجد میں نماز تراویح کی ادائیگی کا اہتمام ہوتا ہے اور کئی صاحب ذوق لوگ اپنے گھروں میں بھی نماز تراویح کا اہتمام کرتے ہیں، رمضان المبارک میں لوگ اپنے گھروں میں بھی تلاوت قرآن پاک کرتے رہتے ہیں، اﷲ کرے، یہ جذبہ سارا سال اسی طرح قائم ودائم رہے اور ہمیں نیکیاں کمانے کی سعادت ملتی رہے’ عیدالفطر ہمارا مذہبی تہوار ہے اور لوگ رمضان المبارک میں اس کی تیاری بھی شروع کر دیتے ہیں، ایک زمانہ تھا کہ رمضان المبارک کے شروع میں ہی فیصل آباد بھر میں عید کارڈز کے سٹال سج جاتے تھے، بازاروں’ مارکیٹوں اور گلی محلوں میں لوگ رنگ برنگے اور دیدہ زیب عید کارڈز خریدتے نظر آتے، دفاتر’ دکانوں اور گھروں میں عید کارڈ کے تذکرے ہوتے، دور دراز علاقوں سے لوگ اپنے عزیزوں’ دوستوں اور چاہنے والوں کو عید کارڈ بھیجتے تھے’ بالخصوص پردیس میں بسنے والوں کو عید کارڈز بھیجنا لازمی تصور کیا جاتا تھا، فیصل آباد کی بات کریں تو یہاں پر پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر’ مشیر وزیراعظم رانا ثناء اﷲ خاں اور سینئر فوٹوگرافر حاجی محمد ابراہیم بڑے اہتمام سے عید کارڈز ارسال کرتے رہے مگر گزشتہ سال سے انہوں نے بھی عید کارڈز بھیجنے کا سلسلہ بند کر دیا ہے، سوشل میڈیا کی یلغار نے جہاں دیگر بہت سے طور طریقے بدل ڈالے وہاں عید کارڈ بھیجنے کا یہ سلسلہ بند ہو گیا، عید کارڈ ایک یادگاری سلسلہ ہوتا تھا، عید کارڈ بھیجنا ہماری روایت ہے مگر واٹس ایپ’ ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ کی جدید ٹیکنالوجی نے آہستہ آہستہ عید کارڈز کی خریداری میں لوگوں کی دلچسپی کم کر دی ہے اور اب یہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے مگر اسے جاری رکھنا چاہیے، واٹس ایپ’ ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ پر عید کی مبارک باد کو عید کارڈ کا نعم البدل نہیں کہا جا سکتا اور اگر یہ کہا جائے کہ عید سے وابستہ یہ روایت دم توڑ چکی ہے تو غلط نہ ہو گا، ماضی میں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں عید کارڈ کی خریداری عروج پر پہنچ جاتی تھی، خاص طور پر لوگ دوسرے شہروں اور بیرون ملک بسنے والے دوستوں اور رشتہ داروں کو عام ڈاک اور ائیرمیل کے ذریعے عید کارڈ پورے اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے، اس وجہ سے عید کے قریب آتے ہی محکمہ ڈاک کا کام بھی معمول سے بڑھ جاتا تھا اور انہیں عوام کے لیے باقاعدہ ہدایت نامہ جاری کرنا پڑتا کہ بروقت ترسیل کے لیے فلاں تاریخ تک عید کارڈ سپرد ڈاک کر دیئے جائیں، عید کارڈز کی روایت کے دم توڑنے کی وجہ معاشی نہیں بلکہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے، فوری اور بروقت رابطے کا ذریعہ ہر شخص کے پاس موبائل فون کی صورت میں موجود ہے، لوگوں کی مصروفیات کا حد سے بڑھ جانا بھی عید کارڈ نہ بھیجنے کی ایک وجہ بنا ہے، پہلے اچھے عید کارڈ کے انتخاب میں بہت وقت صرف کیا جاتا تھا اور مختلف بازاروں میں لگے سٹالوں پر گھوم پھر کر پسند کے عید کارڈ منتخب کئے جاتے تھے مگر اب لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ موبائل فون کے ذریعے آسانی سے ایک ہی وقت میں اپنے تمام جاننے والوں کو عید مبارک کے پیغامات بھیج سکتے ہیں، بلکہ دوستوں اور عزیزوں سے موبائل فون پر براہ راست بات کر کے انہیں عید کی مبارک باد دے دیتے ہیں، اگر ماضی کی بات کی جائے تو عید کارڈ بھیجنے میں بڑی عمر کے لوگوں اور نوجوانوں کے علاوہ بچے بھی گہری دلچسپی لیتے تھے اور اس سرگرمی میں پورے اہتمام کے ساتھ شریک ہوتے تھے، بازاروں اور مارکیٹوں میں بچوں کی مناسبت سے چھوٹے سائز کے عید کارڈ دستیاب ہوتے تھے، بچپن میں ہر کسی کو اپنے دوستوں اور قریبی عزیزوں کو عید کارڈ دینے کا شوق تھا، اسی طرح ان سے عید کارڈ وصول کر کے خوشی حاصل ہوتی تھی، عید کارڈز پر مختلف اشعار بھی درج ہوتے تھے، مجھے یاد آتا ہے کہ ایک عید کارڈ پر لکھا شعر لوگوں کو بہت پسند آ رہا تھا، جو کچھ یوں ہے
میری آرزئوں کی تمہید تم ہو
میرا چاند تم میری عید تم ہو
عید کارڈ بھیجنا ہماری روایت ہے، اﷲ کرے یہ پھر زندہ ہو جائے، عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عید بچوں کی ہوتی ہے جو اس اعتبار سے سچ بھی ہے کہ عید سے منسلک سرگرمیوں سے جو خوشی اور طمانیت بچوں کو ملتی ہے، وہ عام آدمی محسوس نہیں کر سکتا، بچوں کو عید سے ملنے والی خوشی میں اہم کردار بڑوں کی طرف سے ملنے والی عیدی کا بھی ہوتا ہے، یہ بات باعث مسرت ہے کہ عید کارڈ کی طرح عیدی کی روایت ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ آج بھی پہلے کی طرح قائم ہے، عیدالفطر ہمارا مذہبی تہوار ہے، اہل اسلام کی عید صرف خوشی ہی نہیں بلکہ رب العزت کی عبادت’ ذکر اور شکر میں گزرتی ہے، یعنی یوم عید خوشی وشادمانی کے ساتھ ساتھ عبادت کا دن بھی ہے، محبوب خدا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم عیدالفطر کے دن نمازعید سے قبل طاق عدد کھجوریں کھا کر عیدگاہ تشریف لے جاتے تھے، اس لئے عیدگاہ جانے سے قبل میٹھی چیز کھا کر جانا مسنون ہے، ہمیں چاہیے کہ عید کی خوشیوں میں مستحقین کو بھی شامل کریں، الحمدﷲ! اہل اسلام میں باہمی محبت اور ہمدردی کا جذبہ موجود ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی درخشندہ روایات اور محبت وہمدردی کے جذبے کو کسی صورت ماند نہ پڑنے دیا جائے۔
