22

غزہ کی ناکہ بندی اور عالمی ضمیر کی گرفتاری

گلوبل سمود فلوٹیلا (Global Sumud Flotilla) کی حالیہ ناکام کوشش ایک ایسی دل دہلا دینے والی حقیقت ہے جس نے دنیا کے چہرے پر پڑا منافقت کا نقاب نوچ دیا ہے۔ یہ محض ایک امدادی مشن نہیں، بلکہ فلسطینیوں کی بقا کی جنگ میں عالمی برادری کی جانب سے عملی شہادت پیش کرنے کا ایک ایسا باب تھا جسے اسرائیل نے کھلی بربر یت کے ذریعے خون میں ڈبونے کی کوشش کی۔ اس قافلے میں شامل ہونیوالے 500 سے زائد پرامن کارکنا ن دراصل انسانی اقدار، قانون کی بالادستی اور ضمیر کی آواز کے علمبردار تھے جنہوں نے اپنے گھرو ں کا آرام چھوڑ کر، اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر، بحیرہ روم کی تند و تیز لہروں پر یہ ثابت کرنیکی کوشش کی کہ انسانیت جغرافیائی سرحدوں اور فوجی ناکہ بندیوں سے ماورا ہے۔ ان کارکنان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جنگی جنون کے سامنے امن و محبت کا پرچم بلند کیا اور غزہ کے اندر جاری انسانیت سوز صورتحال کو محض اخباری خبروں تک محدود نہیں رہنے دیا۔غزہ کے سمندر پر اسرائیل کا سفاکانہ قبضہ اور قحط کا ہتھیاراسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ ناکہ بندی، جو اب 18 سال سے زائد ہو چکی ہے، اقوام متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی اداروں کی نظر میں غیر قانونی ہے کیونکہ یہ فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے سمندری راستوں پر قبضہ کر کے، اسے دنیا سے مکمل طور پر کاٹ دیا ہے۔ یہ ناکہ بندی محض سکیورٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سفاکانہ حربہ ہے جس کا مقصد غزہ کے لوگوں کو بنیادی ضروریات سے محروم کر کے حماس پر دبا ڈالنا ہے۔ حالیہ تنازعے کے دوران، جب غزہ میں قحط اپنی بدترین شکل اختیار کر چکا ہے، اور بچے بھوک سے مر رہے ہیں، اسرائیل نے دانستہ طور پر امداد کی فراہمی میں ناقابلِ تصور رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ بحیرہ روم میں بین الاقوامی پانیوں کے اندر فلوٹیلا کو فوجی طاقت کے ذریعے روکنا، ان کے جہازوں پر چڑھائی کرنا، اور مواصلاتی نظام جام کرنا، ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل جان بوجھ کر غزہ کے لوگوں کی نجات کا راستہ بند کر رہا ہے۔ یہ کارروائی کسی سکیورٹی اقدام سے زیادہ، بھوک اور پیاس کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے مترادف ہے۔ پرامن محافظینِ انسانیت کی سفاکانہ گرفتاری اور عالمی بے حسیگلوبل سمود فلوٹیلا کے ارکان، جن کے ہاتھوں میں دواں کے ڈبے اور غذائی اجناس کے تھیلے تھے، کو اسرائیلی کمانڈوز نے بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے گرفتار کیا اور انہیں اشدود کی بندرگاہ پر لا کر قیدی بنا لیا گیا۔ یہ پرامن لوگ، جن میں گریٹا تھنبرگ، سابق سینیٹر، پارلیمنٹیرینز اور ڈاکٹرز شامل تھے، کسی مسلح گروہ کے نہیں بلکہ انسانیت کی سب سے بڑ ی مہم کے نمائندے تھے۔ اسرائیل کا یہ غیر انسانی سلوک، جس میں پرامن کارکنان کو واٹر کینن کے حملوں اور حراست کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا، اس امر کا ٹھوس ثبوت ہے کہ اسرائیل اخلاقی حدود کو مکمل طور پر پار کر چکا ہے۔ان گرفتار کارکنوں کے خاندا نوں کی بے چینی اور درد، جو دنیا بھر میں اپنے پیاروں کی رہائی کے لیے التجا کر رہے ہیں، عالمی بے حسی کی آئینہ دار ہے۔ یہ خاندان اسرائیل سے یہ التجا کر رہے ہیں کہ وہ جنگی جنون سے باہر نکل کر ان لوگوں کے ساتھ رحم کا برتا کرے جو صرف بھوکے اور زخمی انسانوں کی مدد کو گئے تھے۔ ان خاندانوں کے لیے، جن کے پیارے غزہ میں امداد لے جانے کے جرم میں غیر ملکی سرزمین پر قید ہیں، اسرائیل کا یہ عمل صریحا ظلم ہے۔ اسرائیل کا یہ اصرار کہ وہ ان سب کو ڈی پورٹ کر دے گا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ عالمی رائے اور انسانیت کی پکار کو یکسر مسترد کرتا ہے۔نتیجہ: ایک قابض ریاست کا دہشت گردانہ رویہبحیرہ روم میں بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی، نہتے سویلین اور انسانی ہمدردی کے مشن پر فوجی حملہ، اور قحط زدہ عوام کے لیے امداد کا راستہ روکنے کے یہ تمام اقدامات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اسرائیل ایک ایسی قابض ریاست ہے جو اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے طاقت اور دہشت کو اپنا بنیادی ہتھیار بنا چکی ہے۔ پرامن انسانوں پر حملہ، ان کی گرفتاری اور غزہ کے عوام کو بھوک سے مارنے کی کوششیں دہشت گردی کی تعریف پر پوری اترتی ہیں۔لہذا، یہ وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری، حقائق اور شواہد کی روشنی میں، اسرائیل کو ایک دہشتگرد ریاست (Terrorist State) قرار دے کر اس کے اس جابرانہ اور غیر انسانی تسلط کو فوری طور پر ختم کرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں