18

قائد کا پیغام۔ تسلی سے پڑھیں

لیڈر کا صاحب بصیرت ہونا اس لئے ضروری ہوتا ہے تاکہ اس کو کل کی صورتحال کا بخوبی اندازہ ہو سکے بصورت دیگر ہوا میں گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں اور ہر طرف مایوسی ہی مایوسی، غیر یقینی صورتحال اور افراتفری۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے کانگرس کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا اور پھر بہت جلدی ہندوں کی متعصب سوچ کا ان کو ادراک ہوگیا اور انہوں نے کانگرس سے اپنی راہیں جدا کرلیں۔ انگریزوں کے خلاف ہندوں سے مل کر مشترکہ جدوجہد پھر بھی کرتے رہے اور ایک خاص وقت کے انتظار میں تھے۔ وقت کی ایک اپنی رفتار ہوتی ہے اور اس رفتار کو سمجھنا اور اس حساب سے اپنا آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دینا ہی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ پھر 1937 کا سال آتا ہے اور الیکشن کے نتیجے میں کانگرسی حکومت بن گئی اور اس کے بعد تو کھلا میدان تھا اور ہندو ذہنیت بے نقاب۔ کہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر مسلمانوں پر پرچے ہونے لگے اور گرفتاریاں۔ کہیں بندے ماترم کے ترانے اور کہیں ودیا مندر سکیم جیسے اقدامات سے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی سر توڑ کوششیں۔ ہندو مسلم فسادات اور مسلمان جابجا مجرم ٹھہرائے جا رہے تھے۔ کیا کیا نہ ہو رہا تھا کانگرس نواز مسلم قیادت کی زبانیں بھی گنگ ہو گئیں تھیں یا پھر وہ بھی مصلحت کا شکار تھے۔ ہر سو سناٹے اور خامشی اور ہندو ذہنی خباثت اور ہٹ دھرمی۔ ایسی صورتحال میں چپ رہنے والی قیادت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چپ ہو جاتی ہے اور آواز اٹھانے والوں کو عوام ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے۔ قائد اعظم کی آنکھوں نے آنے والے دنوں کی واضح تصویر دیکھ لی تھی اور انہوں نے لوگوں میں جانے کا اعلان کردیا۔ یوں عوام اور راہنما کو ایک دوسرے کی بات سننے کا موقعہ ملتا ہے۔ لوگوں میں کھڑے ہو کر ببانگ دہل ان کی بات کرنا اور ان کو ان کی منزل کا پتہ بتانا ہی راہبری اور راہنمائی ہے۔ یہ ایک سیاستدان کا بہت بڑا امتحان تھا محمد علی جناح نے لیڈ کرنے کے تقاضے نبھائے اور پھر قوم نے ان کی آواز میں درد اور اپنائیت محسوس کی اس کے بعد تو برصغیر کے مسلمانوں نے بیک زبان ان کی آواز پر لبیک کہا اور اس کے زیر اثر اٹھنے والی قائد کی آواز نے انگریزوں کو کانگرسی وزارتیں ختم کرنے پر آمادہ کیا۔ یوں جبر کے دن تمام ہوئے اور مسلم لیگ نے 23 مارچ 1940 کو منٹو پارک لاہور میں ایک جلسے کا اعلان کیا۔ شرکا کا جذبہ، جوش، میلان اور شرکت۔ قائدین کی آمد اور قائدین کی تنظیم سازی کا طریقہ کار۔ ہر ایک چیز اپنی نوعیت کی مختلف اور منفرد تھی۔ ایسے ماحول میں حضرت قائد اعظم کا انداز تقریر اور اس تقریر کا سامعین پر اثر۔ یوں شدومد سے قرار داد لاہور منظور ہوئی۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ۔ علامہ محمد اقبال رح کے خطبہ الہ آباد کا حقیقی رنگ منظر عام پر آگیا اور چند ہی دن بعد قرارداد لاہور قرارداد پاکستان میں تبدیل ہو گئی۔ منزل کا تعین ہوا اور منزل کی طرف جانے پر سب مسلمانوں کو آمادہ کیا گیا۔ ہرسوایک ہی نعرہ گونجا اور وہ نعرہ تھا اب بن کے رہے گا پاکستان۔ 1940 سے 1947 تک کا سات سالہ سفر ہمارے قائد نے بڑی جرات ہمت حوصلے اور تحمل سے طے کیا اور قرارداد پاکستان کا نتیجہ 14اگست 1947 کو نکلا۔ سب زنجیریں ٹوٹ گئیں اور دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک حقیقت بن کر ابھرا۔ اب اس ملک کی دنیا کے نقشے پر نمایاں جگہ ہے کیونکہ اس ملک کی ایک خاص جغرافیائی اہمیت ہے اور اس اہمیت سے دنیا کے سارے طاقتور ممالک پوری طرح واقف ہیں تاہم ہم خود اپنے بارے میں تذبذب کا شکار ہیںمیں ایک پاکستانی ہوں اور میں نے اپنے ملک کے سارے مشہور مشہور شہر دیکھ لئے ہیں۔ ویسے میں خالص دیہاتی ہوں اور مجھ سے دیہاتی کلچر، ثقافت، تہذیب، معاشرت، معیشت وغیرہ وغیرہ کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے۔ مجموعی طور پر میں نے پاکستان کو جاننے کے لئے مطالعہ پاکستان کی پوری کتاب پڑھ لی ہے بلکہ کئی کئی دفعہ پڑھ لی ہے بلکہ یوں کہیں ازبر کرلی ہے لیکن افسوس میں اب تک بھی پاکستان کو جاننے اور سمجھنے میں کامیاب نہیں ہوا ہوں۔ کبھی تو مجھے اس کے قائم ہونے کے بارے میں متشکک کردیا جاتا ہے۔ کبھی مجھے اس کا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگ جاتا ہے۔ کبھی میں اس کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہوں۔ شاید میں واقعی احساس کمتری کا شکار ہوں کیونکہ اس مرض کے بھی اپنے مسئلے مسائل ہیں اور اس کا علاج صرف ایک ہی ہے کہ اپنے آپ کو جاننے کی اور پہچاننے کی کوشش کی جائے جبکہ ہم نے آج تک بڑے کام کئے ہیں لیکن اس کوشش کو کرنے کا ہمیں شعوری احساس ہی نہیں ہے۔ آج بیٹھے بیٹھے دل میں خیال آیا کہ 1857سے 1947 تک کے عرصے کا پوری یکسوئی سے مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اس خواہش کی تکمیل کے نتیجے میں بہت کچھ نظر آیا۔ ہندوں کی اصل ذہنیت کھل کے سامنے آئی۔ انگریزوں کے معاندانہ طرز عمل کا عملی مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا، مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور اخوت وبھائی چارے کا فقدان بھی تھا۔ مجموعی طور پر بڑا کچھ تھا لیکن ایک بات کھل کھلا کے سامنے آئی کہ آج کے ہر پاکستانی کو کم از کم 1937 میں بننے والی کانگرسی حکومتوں کے مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم کے بارے میں اچھی طرح بلکہ بہت ہی اچھی طرح بتانے کی اشد ضرورت ہے۔ ظلم وستم کی ستائی ہوئی مسلمان قوم کس طرح منٹو پارک میں اکٹھی ہوتی ہے اور کس جذبے اور جوش کے ساتھ قرارداد لاہور کو منظور کرتی ہے اور آخر پر قائداعظم کا خطاب۔ اس خطاب کا ایک ایک لفظ، ایک ایک فقرہ اور آخر پر اس خطاب کا خلاصہ ہر پاکستانی کے سامنے کھول کر رکھ دینے کی ضرورت ہے۔ شاید یہ سارا کام کرنے کے لئے سب سے پہلے ہم سب کو سنجیدہ ہونا ہوگا اور قائد کے پیغام کو سننے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہونا ہوگا۔ یہی وہ پیغام ہے جو آج کے دور میں جملہ مسائل کا علاج ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو ہم سب کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جس سے ہم سب میں احساس ذمہ داری پیدا ہو سکتا ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جس سے ہم دشمنوں اور دوستوں میں فرق کرنے کے قابل ہو جائینگے۔ یہی وہ پیغام ہے جو آج بھی ہماری آنکھوں سے فرقہ بندی، صوبائیت، لسانیت اور عصبیت جیسی بیماریوں کے ککرے دھو سکتا ہے۔یہی وہ پیغام ہے جو فیوڈل اور کرپٹ ذہنیت کا خاتمہ کر سکتا ہے اور یہی وہ پیغام ہے جو ہم سب میں جذبہ حب الوطنی پیدا کرکے ہم سب کو پاکستان کوآگے لے جانے کے لئے ایک ہی پیج پر لا سکتا ہے۔ بہر حال یہ پیغام پڑھنا بھی ہوگا اور سمجھنا بھی ہوگا آئیے 23مارچ کو صرف یہی کام کرتے ہیں اور وہ بھی تسلی سے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں