30

قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے مزید قرضے لینے کا فیصلہ

اسلام آباد (بیوروچیف)حکومت نے خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں کے ملازمین کو ماہانہ تنخواہوں کی ادائیگی اور دوسرے اخراجات پورے کرنے کے علاوہ پہلے سے لیے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے مارچ سے مئی2023 کے تین مہینوں کے دوران 1.5 ٹریلین روپے کے مزید قرضے لینے کا فیصلہ کیا ہے۔حکومت نے مجموعی طور پر لیے جانے والے قرضوں کا ہدف سات ٹریلین روپے مقررکیا ہے ،ان قرضوں کے بڑا حصہ یعنی 5.5 ٹریلین روپے مالیاتی اداروں سے لیے گئے پہلے قرضوں پر سود کی مد میں ادا کردیا جائے گا۔عارف حبیب لمیٹڈکے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس کے مطابق آئی ایم ایف قرضہ پروگرام کی بحالی میں تاخیر کے سبب حکومت پاکستان پر اندرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہاہے۔ حکومتی اخراجات میں سب سے بڑا حصہ اب قرضوں پر سود کی ادائیگی ہوتا ہے۔دوہفتے قبل موڈیز کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ پاکستان مالی سال 2023 میں اپنی آمدنی کے نصف سے زیادہ صرف سود کی ادائیگی پر صرف کریگا۔اسٹیٹ بینک کی جانب سے مارچ میں پالیسی ریٹ 300 بیسز پوانٹس بڑھا کرشرح سود کو20 فیصد کردیا ہے جس سے حکومت کیلئے کمرشل بینکوں سے مزید قرضہ لینا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ اس سال تک حکومت ہی نے کمرشل بینکوں سے سب سے زیادہ قرضے لے رکھے ہیں۔ملک کے دفاعی اخراجات کے علاوہ سبسڈیز اور سوشل اخراجات بھی بڑا درد سربن چکے ہیں۔الفا بیٹا کورہیڈ آف ریسرچ خرم شہزاد نے کہا روپے کی قدر میں حالیہ کمی کے بعد بیرونی قرضوں کے حجم مزید کوئی نئے قرضے لیے بغیر ہی بڑھ گیا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی کی قدر میں 10روپے کمی سے ملک پر قرضوں کا بوجھ 1.3 ٹریلین روپے بڑھ جاتا ہے۔یوں جولائی 2022 سے جنوری 2023 تک قرضوں میں 55 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوچکاہے۔حکومت پاکستان کمرشل بینکوں سے اب نئے قرضے ٹی۔بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز(PIBs)کی فروخت سے حاصل کریگی۔لیکن آئی ایم ایف اپنے 6.5 ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کی بحالی کیلیے ایسے قرضوں کی ممانعت کرچکا ہے۔حکومت نے ٹیکسوں میں اضافہ کرکے اپنی آمدنی بڑھائی ہے لیکن پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرام میں بھاری کٹوتی کے باوجود بجٹ اخراجات پر قابو نہیں پایا جارہا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں