75

قوم کی حکومت سے توقعات! (اداریہ)

مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف پاکستان کے 24 ویں وزیراعظم منتخب ہو گئے ہیں اس بار بھی ملک میں کسی ایک سیاسی جماعت کی حکومت کے بجائے مخلوط حکومت بنے گی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ میں بڑی جماعتیں بن کر ابھری ہیں اور ایک بار پھر دونوں جماعتوں کو ایوان میں اہمیت حاصل رہے گی ایم کیو ایم پہلے بھی پی ڈی ایم میں شامل تھی اب بھی وہ نئی حکومت کی اتحادی جماعت ہو گی، سیاست سڑک سے پارلیمنٹ میں منتقل ہو چکی ہے اور یہ ملک کیلئے ایک خوش آئند امر ہے نئی حکومت کیلئے مسائل کے انبار ہیں جن سے نمٹنا ہو گا پوری قوم کی نظریں ایوان اقتدار پر لگی ہیں’ ناامیدی اپنی انتہا پر ہے اور قوم کسی وقفے کے بغیر ریلیف چاہتی ہے، مہنگائی نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے عام آدمی کیلئے دو وقت کی روٹی فراہم کرنا بھی مشکل ہے ملک کی معاشی آزادی اور خود مختاری گروی رکھی جا چکی ہے، ٹیکس سے لیکر اشیاء کی قیمتوں تک آئی ایم ایف کے حکم کے بغیر ایک پیسے کا بھی فیصلہ کرنا ممکن نہیں رہا’ امن وامان دگرگوں ہے’ دہشت گرد ایک بار پھر ملکی سلامتی کو چیلنج کرتے پائے جا رہے ہیں حالات کی سختی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عین اس وقت جب وزیراعظم کے انتخاب کی تیاریاں تھیں عالمی سا ہو کار آئی ایم ایف کی جانب سے قوم کی گردن میں پھندا مزید سخت کرنے کا حکم جاری کیا جا چکا تھا جس میں حکم دیا گیا کہ تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے، ٹیکس سلیب کی تعداد 7سے کم کر کے 4کی جائے حکومت کے پاس پرانی حکومت پر الزام تراشی سمیت کوئی بہانہ یا ناکامی کا کوئی آپشن نہیں ہے اسے عوامی توقعات اور ملکی مسائل کے حل کی منزل پر اس حال میں پہنچنا ہے کہ انتہائی متحرک اپوزیشن قدم قدم پر راستہ روکے گی رکاوٹیں کھڑی کرے گی جو کہ اس کا جمہوری حق ہے دوسری طرف حکومتی اتحادیوں کے مطالبات حکمرانوں کے فہم وتدبر اور حوصلوں کو مسلسل آزمائش میں ڈالیں گے، اﷲ کرے شہباز شریف کی حکومت کامیاب ہو اور پنجاب سے نکل کر پورے ملک کیلئے کام کرے اور پورے ملک کی ترقی پر توجہ دے نئی حکومت کو معیشت کے استحکام کیلئے سخت فیصلے کرنا ہوں گے اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہو گا کیونکہ قوم تو ریلیف چاہتی ہے اگر ان پر مزید بوجھ ڈالا گیا تو یہ قوم کیلئے قابل قبول نہیں ہو گا ایسے حالات میں جب مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہو بے روزگاری نے عام آدمی کا برا حال کر رکھا ہو اسمگلنگ سے کھربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہو ذخیرہ اندوزی’ ناجائز منافع خوری’ بجلی’ گیس اور ٹیکس چوری نے ملکی معیشت کو کھوکھلا کر دیا ہو تجارتی خسارہ درد سر بنتا جا رہا ہو گردشی قرضے بے قابو ہو چکے ہوں تو حکومت کا ان سب سے نمٹنا کس قدر ناممکن ہو گا اس کا اندازہ عام آدمی بھی لگا سکتا ہے وزیراعظم نے تمام سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت کی دعوت دے رکھی ہے اور اب انہوں نے میثاق مفاہمت کی بھی اپوزیشن کو دعوت دی ہے تاہم فی الحال کسی بھی میثاق پر کسی جانب سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ رہی ایک طرف سیاسی جماعتیں ہیں دوسری جانب پوری قوم کی امیدیں حکمرانوں پر ہیں کہ ان کی بات پر توجہ دی جائے وزیراعظم نے تاحال کابینہ تشکیل نہیں دی کابینہ کی تشکیل کے بعد ہی یہ بات سامنے آئے گی کہ نئی حکومت کس ایجنڈے کے تحت معاملات آگے بڑھائے گی ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی حکومت ملک کے مسائل کو سیاسی تدبر کے ساتھ حل کرے اتحادی جماعتوں سے کئے وعدے پورے کئے جائیں معیشت کے استحکام کیلئے فوری فیصلے کئے جائیں مہنگائی’ بے روزگاری’ بدامنی’ جیسے مسائل سے نمٹا جا سکے قوم کو حکومت سے بہت سی توقعات ہیں جن پر حکومت کو پورا اترنا ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں