71

مخلوط حکومت کیلئے چیلنجز سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا (اداریہ)

آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن میں کسی بھی سیاسی پارٹی کو سادہ اکثریت نہ ملنا لمحہ فکریہ سے کم نہیں، ملک کی بڑی جماعتوں نے بڑے دعوے کئے تھے کہ وہ کسی کی حمائت کے بغیر حکومت بنائیں گے مگر الیکشن کے نتائج نے سب کچھ الٹ پلٹ کر دیا مقابلے اتنے سخت ہوئے کہ چند ہزار ووٹوں نے فیصلہ کیا کبھی پی ٹی آئی کبھی (ن) لیگ اور کبھی پیپلزپارٹی آگے پیچھے رہیں تاہم مسلم لیگ سخت مقابلے کے بعد قومی اسمبلی میں 76سیٹوں کے ساتھ نمایاں رہی آزاد امیدوار جو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ تھے ان کی تعداد (ن) لیگ کے امیدواروں سے بھی زیادہ رہی چونکہ آزاد امیدواروں کے پاس کسی رجسٹرڈ سیاسی جماعت کا ٹائٹل نہ ہونے کے باعث اسے وہ اہمیت نہ مل سکی جس کی امید کی جا رہی تھی نئی قومی اسمبلی وجود میں آ چکی ہے وزیراعظم کابینہ کا اعلان کریں گے یہاں یہ بات عرض کرتا چلوں کہ (ن) لیگ’ پیپلزپارٹی’ ایم کیو ایم کے اتحاد کے ساتھ حکومت بنا رہی ہے اور مخلوط حکومت کیلئے چیلنجز سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا اس وقت ملک میں سیاسی’ معاشی استحکام’ بیرونی قرضوں کی ادائیگی خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی بحالی’ مہنگائی’ بے روزگاری’ بدامنی سمیت ڈھیروں ایسے مسائل ہیں جن کا حکومت کو سامنا کرنا ہو گا، ماضی میں جو کچھ ہوا اب اس کو دوبارہ دہرانے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے کیونکہ پارلیمنٹ کی بے توقیری کر کے سیاستدانوں نے کچھ حاصل نہیں کیا اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس سے مشکلات میں اضافہ ہو گا ارکان پارلیمنٹ قوم کی راہنمائی کرنے کا حق ادا کریں سیاسی اختلافات رکھیں مگر قومی اسمبلی کو قومی مسائل حل کرنے کیلئے استعمال ہونا چاہیے چور’ چور کے نعرے لگانے والے پارلیمنٹ کی بے توقیری کرنے سے پرہیز کریں بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان ملک وقوم کی تعمیر وترقی اور خوشحالی کیلئے منصوبہ سازی کرنے کے بجائے خود کو نمایاں کرنے اور سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس کے باعث ہمارا ملک بہت پیچھے چلا گیا ہے ہماری برآمدات کم ہو رہی ہیں مہنگائی بے قابو’ بدامنی کا دور دورہ’ غریبوں کا جینا محال کم آمدنی والے افراد کی مشکلات دن بدن بڑھ رہی ہیں مگر سیاستدانوں کو اس کی کوئی فکر نہیں بجلی کے نرخوں میں آئے روز اضافہ’ گیس کے بلوں میں ہوشربا اضافہ’ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ سے مہنگائی بے لگام ہو رہی ہے نئی حکومت نے اگر عوامی مسائل سے چشم پوشی کی تو پھر یہ سیاسی نظام چل نہیں سکے گا، اراکین اسمبلی ہر اجلاس میں اپنے حلف سے روگردانی کرتے ہیں دوسروں کو آئین شکنی کے طعنے دینے والوں کو اپنا حلف بھی یاد رکھنا چاہیے ملک کو چلانے کیلئے سیاستدانوں کو مل جل کر فیصلے کرنا ہونگے سیاسی سماجی ماحول میں پچھلے چند برسوں کے دوران منافرت’ انتشار’ اشتعال’ الزامات’ بے بنیاد پراپیگنڈے کا جو زہر معاشرہ میں سرایت کر گیا ہے اس کا تریاق تلاش کرنا ہو گا قانون ساز اور پالیسی ساز اداروں میں شوروغل اور دھینگامشتی کے مناظر کے بجائے شائستہ مکالمے اور معقول دلائل کے ذریعے اختلافات کے تصفیئے کی روائت اپنانا ہو گی 2018 کے الیکشن کے بعد ہماری پارلیمان میں پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے اپوزیشن کیلئے انتہائی توہین آمیز رویئے کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے بیشتر قانون سازی صدارتی فرامین کی شکل میں ہوتی رہی نئے پارلیمانی سفر میں آعاز سے ہی بہتر ماحول تشکیل دینے کی کوشش نئی حکومت کی کوشش ہونی چاہیے اس حوالے سے اپوزیشن کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا ورنہ مسائل جوں کے توں رہیں گے، نئی حکومت پر بھاری ذمہ داریاں ہونگی لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی مخلوط حکومت ملکی مسائل کے حل کیلئے تحمل مزاجی کے ساتھ اپوزیشن کے ساتھ سلوک روا رکھے تاکہ سیاسی عدم استحکام جیسی صورتحال دوبارہ پیدا نہ ہو سکے ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے برآمدات کو فروغ دیا جائے انڈسٹری کیلئے بجلی اور گیس ارزاں نرخوں پر فراہمی ناگزیر ہے عام آدمی کی فلاح کیلئے منصوبے بنائے جائیں مہنگائی پر قابو پانے کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں کم ازکم اجرت 50ہزار کی جائے تاکہ مہنگائی کے ہاتھوں تنگ عوام کی زندگی میں آسانی پیدا ہو سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں