مدارس کی رجسٹریشن واصلاحات سے متعلق علماء ومشائخ کانفرنس میں مدارس کی رجسٹریشن کے موجودہ نظام کو برقرار رکھنے پر اتفاق کر لیا گیا ہے وزیراطلاعات عطاء اﷲ تارڑ کا کہنا ہے کہ مدارس رجسٹریشن پر حکومت علمائے کرام کی تجاویز پر مشاورت کرے گی فضل الرحمان قابل احترام ہیں ان کی تجاویز بھی سنیں گے دوسری جانب جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ علماء کے مقابلے میں علماء کو لایا جا رہا ہے، حکومت اس معاملے کو سیاسی اکھاڑہ نہ بنائے’ ہمیں حکومت کی کوئی تجویز یا مسودہ قبول نہیں ادھر وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے وفاق المدارس کے سرپرست اعلیٰ مولانا فضل رحیم اشرفی اور دیگر اکابرین سے جامعہ اشرفیہ میں ملاقات کی جس میں دینی مدارس کے بل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا،’ مولانا فضل رحیم نے کہا کہ مدارس کے معاملات پر سیاست نہیں ہونی چاہیے پنجاب میں بھی وفاق کی طرز پر مدارس محکمہ تعلیم کے ماتحت ہونے چاہئیں جبکہ اسلام آباد میں منعقدہ مدارس عربیہ سے تعلق رکھنے والے علماء اور مشائخ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وزارت تعلیم سے منسلک موجود نظام مدارس کو برقرار رکھا جائے اور کسی بھی صورت میں ڈی جی آر ای کے نظام کو ختم نہیں کرنا چاہیے یہ مطالبہ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی کی طرف سے پیش کردہ متفقہ قرارداد میں کیا گیا کہ مدارس کو نظام تعلیم سے ہی وابستہ رکھا جائے اس نظام کو تبدیل نہیں کرنا چاہیے کسی بھی صورت میں موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کی کوئی کوشش قابل قبول نہ ہو گی،، مدارس رجسٹریشن ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر اس وقت حکومت اور مولانا فضل الرحمان آمنے سامنے ہیں مولانا تو باقاعدہ طور پر حکومت کو دھمکیاں دے رہے ہیں یہ رویہ ایک بڑے سیاسی ومذہبی قائد کی طرف سے ہونا نہیں چاہیے 26ویں آئینی ترمیم کے دوران مولانا فضل الرحمان نے سودی نظام کے خاتمے کیلئے بہت اچھا کام کیا تھا اس معاملے میں ان کے کردار کی تعریف ہونی چاہیے ان کی تعریف بھی ہوئی لیکن اب مدارس رجسٹریشن والے مسئلے پر ایک مرتبہ پھر حکومت اور مولانا فضل الرحمان آمنے سامنے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے مولانا بہت برہم ہیں انہوں نے کہا ہے کہ مدارس کو دبائو میں رکھنا ہے تو ہم بتائیں گے کہ آپ کا دبائو چلتا ہے یا ہمارا؟ اصل شدت پسند وہ ہوئے جو ملک کو فساد کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں ہم تو پرامن طریقے سے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں جب نواز شریف وزیراعظم تھے ہم نے مدارس کا مسئلہ ان کے سامنے رکھا تھا حکومت میں شامل پارٹی سربراہان اجلاس میں اتفاق ہوا تھا کہ مدارس کو اختیار ہو گا، آصف زرداری’ بلاول زرداری سب ہی اس میں شامل تھے اب اس پر اعتراض لگانا بدنیتی ہے آپ ہماری برداشت کا امتحان لے رہے ہیں ہم مدارس کو حکومت کے اثررسوخ سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں،’ مدارس اصلاحات اور اس نظام سے زیادہ بہتر فائدہ اٹھانے اور مستقبل میں اسے بطور خاص چندے اور عطیات کے ذریعے چلانے سے بچانے کیلئے حکومتی سرپرستی لازم ہے مولانا کیوں حکومت کے اثرورسوخ کی بات کر رہے ہیں جب ملک میں ہر ادارہ حکومت کے زیراثر ہے تعلیمی اداروں کو حکومت چلاتی ہے تو مدارس کو کیوں آزادانہ طور پر انفرادی طور پر کسی شخصیت زیراثر ہوں؟ یہ سارا نظام حکومت کو خود سنبھالنا چاہیے اگر کوئی دینی مدارس کی مدد کرنی چاہتا ہے تو اس کے لیے مربوط نظام ہو حکومت خود ان تمام معاملات کی ذمہ داری اٹھارئے مدارس کے اساتذہ کو عزت دی جائے انہوں نے سکولوں’ کالجوں اور جامعات کے اساتذہ کی طرز پر ایک نظام کے تحت تعینات کیا جائے ان کے لیے سروس سٹریکچر بنایا اور چلایا جائے دینی مدارس کے ہاسٹلز اور طلبا کے لیے صحت مند سرگرمیوںکے مواقع پیدا کئے جائیں کسی کو مدارس کا نظام کنٹرول کرنے کیلئے منفی سیاست نہیں کرنی چاہیے حکومت کو اس معاملے میں واضح پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے جب کہ مذہبی قیادت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ آگے بڑھنے کیلئے روایتی طریقوں کے بجائے نظام کو مضبوط بنانے پر کام کرنا پڑے گا مدارس کے طلبا کا استحصال اور ذاتی مقاصد کے لیے استعمال بند ہونا چاہیے مدارس کا مسئلہ صرف مذہبی قیادت کا مسئلہ ہرگز نہیں ہے یہ پاکستان کے مستقبل کا مسئلہ ہے اسے بہت اچھے انداز میں حل ہونی چاہیے اسے سیاست کی نذر ہرگز نہیں کیا جا سکتا یہ ملک کے ہزاروں نہیں لاکھوں نوجوانوں کا مسئلہ ہے کسی کو بھی اس معاملے میں ذاتی وسیاسی مفادات ومقاصد کی عینک اتار کر ہی سوچنا پڑے گا۔
6