اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے رجسٹریشن بل کے تنازع کا ڈراپ سین ہوچکا ہے۔ صدر آصف زرداری نے مولانا فضل الرحمن کے مطالبے پر اسمبلی سے منظور شدہ بل پر دستخط کردئیے ہیں جس سے وہ اب قانون بن گیا جبکہ اس کے ساتھ ہی ایک آرڈیننس پر بھی دستخط کئے ہیں جس سے وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ مدارس کو بھی قانونی تحفظ مل گیا۔ البتہ اسے اگلے ایک سو بیس دنوں کے اندر پارلیمنٹ سے بطور ایکٹ منظور کرانا پڑیگا ورنہ آرڈیننس ختم ہو جائیگا۔ فرق یہ ہے سوسائٹی ایکٹ اسمبلی سے منظور ہوا اسکی ایک حیثیت ہے وزارت تعلیم سے منسلک ہونا صدارتی آرڈیننس ہے جس کی ایک مدت ہے جو ختم ہو سکتی ہے، مولانا فضل الرحمن اوراتحاد تنظیمات مدارس کو کیا ملا؟ مولانا فضل الرحمن اوراتحاد تنظیمات مدارس کو ایک اہم کامیابی تو یہ ملی ہے کہ ان کے مطالبے کے عین مطابق اسمبلی سے منظور شدہ مدرسہ رجسٹریشن بل من وعن ایکٹ آف پارلیمنٹ بن گیا، اس پر صدر نے دستخط کر دئیے۔ اک کامیابی یہ بھی ہوا کہ نئے دس مدرسہ بورڈز میں سے ہر ایک پر کلیئر ہوگیا کہ مولانا فضل الرحمن دینی مدارس کے متفقہ نمائندے ہیں اور انہوں نے اپنی حکمت عملی سے سب کو ایک چھتری تلے لانے کی کوشش کی اب مولانا صرف ایک ہی دھڑے یا حلقے کے نمائندہ نہیں ہیں اورایک اچھا خاصا بڑا حلقہ ان کے دائرہ اثر میں آ چکا ہے بلکہ ان سے اب شدید محبت بھی کرے گا مولانا فضل الرحمن کے حامی ان کی ستائش کرتے ہوئے زبردست انداز میں کہا کرتے تھے کہ مولانا پانچ لاکھ علما کے نمائندہ ہیں۔ میرا خیال ہے آئین میں دو سطروں کے اضافہ سے اب انہیں ازخود یہ تعداد بڑھا دینی چاہیے۔ مولانا تمام دنیا کے علما مشائخ کے نمائندے ہیں اب یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دس نئے سرکاری مدرسہ بورڈز کو کیا ملا؟ مجمع العلوم الاسلامیہ اور دیگرمدرسہ بورڈز کو سب سے بڑی کامیابی یہ ہوئی کہ وہ بدستور وزارت تعلیم کے تحت رہیں گے۔ یہی انکی خواہش تھی جو انہوں نے مولانا فضل الرحمن سے دبے لفظوں اظہار کی تھی اب انہیں آرڈینینس کے ذریعے قانونی تحفظ مل گیا ۔ یہ بھی مولانا فضل الرحمن کی کوششوں سے ہوا ان سرکاری مدرسہ بورڈز کے لئے البتہ یہ چیلنج ضرور ہوگا کہ چار ماہ کے اندر اندر اس آرڈیننیس کو اسمبلی سے منظور کرائیں تاکہ یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ بن جائے ، بصورت دیگر ایک سو بیس دنوں کے اندر یہ آرڈیننس ایکسپائر ہوجائے گا۔ حکومت کو کیا حاصل ہوا؟ حکومت کے لئے طمانیت کی بات یہ ہے کہ اس مسئلے کے دونوں فریق راضی ہوگئے ہیں۔ اگر اسمبلی سے منظور بل پر صدر دستخط نہ کرتے تو مولانا فضل الرحمن اور اتحاد تنظیمات مدارس کے لوگ احتجاجی موڈ میں چلے جاتے، ممکن ہے مولانااک نئے جذبہ و ولولہ سے لانگ مارچ بھی شروع کر دیتے ۔اب ایسا نہیں ہوگا۔ حکومت کو البتہ اس معاملے میں اپنی کوتاہی اورغلطیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ انہیں اسمبلی سے بل منظور کراتے ہوئے ہی ایشو کو درست ہینڈل کرنا چاہیے تھا، تب چند لفظوں کے ہیرپھیر سے یہ بل سب کیلئے قابل قبول بن جاتا۔ حکومت کو تب اس معاملے کی سنگینی اور پیچیدگی کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔ جب حکومتی ٹیم کی دس نئے مدرسہ بورڈز کے لوگوں سے ملاقات ہوئی تو بعض وزرا نے اعتراف کیا کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس بل کو تمام دینی مدارس کی حمایت حاصل ہے اور انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ پانچ بورڈ ایک طرف اور دس نئے مدرسہ بورڈ دوسری طرف ہیں۔(یہ سرا سر جھوٹ کہ انہیں علم نہی تھا )ایسی بے خبری اور لاعلمی قابل تنقید ہے۔ اس معاملے کو جاننا کون سامشکل تھا؟کسی اخبار کے لئے مذہبی بیٹ کرنے والا ایک اچھا رپورٹر بھی ان تمام چیزوں سے باخبر اور آشنا تھا، حکومت کے پاس تو وزارت مذہبی امور اور کئی مشیر باتدبیر موجود تھے۔ خیر اچھا ہوا کہ تنازع نمٹ گیا۔ اس کے اثرات اگرچہ دوررس اور ہمہ گیر ہوں گے۔ بظاہر مبارکبادوں کا شور ہے، مگر اندر سے باخبر لوگ جانتے ہیں کہ سازشی لوگوں کو بھت بڑی ناکامی ہوا ہے اور ان کا مدارس و علما کو تقسیم کرنے کا منصوبہ فیل ہوا ہے 2025 کا سورج انشا اللہ تعالیٰ اتحاد تنظیمات مدارس کے لیے مزید اتفاق و محبت کا موجب ہو گا ۔
7