16

مذاکرات کے راستے بند،بانی PTIکے گرد گھیرا مزید تنگ

اسلام آباد (بیوروچیف) پاکستانی سیاست میں عدم استحکام کا تاثر برقرار ہے کیونکہ حکومت اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان سیاسی ڈیڈ لاک کے باعث تلخیاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران پی ٹی آئی کو متعدد بار مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی مگر پی ٹی آئی نے ہر بار ان کی پیشکش کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ وہ ان سے بات چیت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اس کے ردعمل میں اب حکمران جماعت کے لوگ بھی مذاکرات کے راستے کو بند دیکھ رہے ہیں۔البتہ ملک کے دیگر آئینی اداروں نے بھی موجودہ ملکی سیاست میں بڑھتے درجہ حرارت اور سیاسی ڈیڈ لاک کو بھانپتے ہوئے پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی صلاح دی ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی ویڈیو لنک پر پیشی کے دوران ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر مسائل حل کرنے اور ملک کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔واضح رہے کہ اس مقدمے میں عمران خان کی جانب سے دلائل دیے جا رہے تھے جس کے دوران بینچ میں شامل ججوں کی جانب سے اہم ریمارکس سامنے آئے اور بظاہر مشورہ دیا گیا کہ سیاستدان اختلافات کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کریں۔مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ وہ اب بھی مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ سے کرنا چاہتے ہیں اور پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں کو اہمیت دینے اور ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتے۔اس کی واضح مثال ا ڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران ان کا بیان ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ہم ان سے بات کریں گے جن کے پاس طاقت ہے۔ ان کے پاس تو طاقت ہی نہیں۔اس تمام سیاسی رسا کشی میں اب حکمران جماعت بھی پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی اپنی پیشکش سے پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہے اور وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف نئے مقدمات قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔پاکستانی وزیرِاعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ عمران خان کے خلاف نئے مقدمات قائم ہوں گے، ہو رہے ہیں۔انھوں نے عمران خان کے سوشل میڈیا اکانٹ سے پوسٹ ہونے والی حمود الرحمان کمیشن سے متعلق ایک ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اسے بغور دیکھیں تو اس کے اوپر مقدمہ تو بن سکتا ہے۔پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان رف حسن سے جب حکومت سے مذاکرات اور رانا ثنا اللہ کے بیان کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں انھیں (رانا ثنا اللہ) کو سنجیدہ ہی نہیں دیتا۔پی ٹی آئی نے کئی مہینوں سے حکومتی مذاکرات کی پیشکش پر سخت مقف اپنایا ہوا ہے۔ سابق صدر عارف علوی نے فیصل آباد میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی میں کہتا ہوں کہ جو دھاندلی سے اقتدار میں آئے ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔عارف علوی کا خطاب میں مزید کہنا تھا کہ میں گھر کی بات گھر کے مالک سے کروں گا، گھر میں جو رہ رہا ہے اس سے بات کروں گا۔ اگر چوکیدار کہتا ہے کہ میں گھر کا مالک بن گیا ہوں تو اس سے بات کروں گا۔ میں مالی سے تو بات نہیں کروں گا، باہر جو کھڑا ہوا ہے ٹھیلے والا اس سے تھوڑی بات کروں گا۔ یہ جو فارم 47 والے ہیں یہ تو ٹھیلے والے بھی نہیں ہیں۔پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار نصرت جاوید سمجھتے ہیں کہ حکومت کی مذاکرات کی پیشکش واپس لینے کی وجہ پی ٹی آئی کا رویہ ہے۔ رانا ثنا اللہ کا مذاکرات کے حوالے سے بیان کوئی حیران کن بات نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی رہنمائوں نے ہتک آمیز رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ کل عارف علوی نے کہا کہ وہ مالکوں سے بات کریں گے مالی سے نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ حکومت بیاختیار ہے، کٹھ پتلی ہے اور بات صرف پاکستانی فوج سے کریں گے۔ عمران خان کے حق میں آنے والے فیصلے مذاکرات کے حوالے سے حکومتی حکمت عملی میں تبدیلی کی ایک وجہ ضرور ہوسکتے ہیں لیکن یہ کوئی فیصلہ کن وجہ نہیں۔رانا ثنا اللہ کی جانب سے عمران خان کے خلاف مزید مقدمات کے اندراج سے متعلق بیان پرانہوں نے کہا کہ نئے مقدمات کا حشر بھی وہی ہوگا جو پرانے مقدمات کا ہوا ہے۔دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مذاکرات کس سے کرنے ہیں اور کس سے نہیں اس کا فیصلہ عمران خان کی مرضی پر منحصر ہے۔خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والی تجزیہ کار فرزانہ علی نے میڈیا کو بتایا کہ یہاں جو پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہ مکمل طور پر خان صاحب کی ہاں یا نہ پر انحصار کرتی ہے۔وہ کہتی ہیں وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور صوبائی پارٹی کے صدر بھی ہیں لیکن وہ بھی اڈیالہ جیل سے آنے والے پیغام کو ہی دیکھتے ہیں۔انھوں نے عارف علوی کے حالیہ خطاب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے سیاستدانوں کو ٹھیلے والا بنا دیا۔فرزانہ علی کے مطابق پی ٹی آئی کے کارکنان اپنی قیادت کی ہر بات مانتے ہیں اور بیانات میں تضادات کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ان کی رائے میں پی ٹی آئی پر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات نہ کرنے کا دبا ان کے کارکنان کی جانب سے بھی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اس وقت میں اپنے کارکنوں اور بیانیے کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتی۔ الیکشن میں وہ(کارکنان) سمجھتے تھے کہ عمران خان کے خلاف غلط کیسز بنائے گئے اور ان کے ساتھ اچھا نہیں ہوا، اس لیے یہاں کہا گیا کہ ہمیں ایک خاص ادارے کے خلاف ووٹ دینا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ اب جب قیادت مذاکرات کی بات کرتی ہے تو کارکنان کہتے ہیں کہ اب بات تو ان(اسٹیبلشمنٹ) سے ہی کرنی پڑے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں