99

معاشی بہتری کیلئے سرکاری سطح پر کفائت شعاری ناگزیر (اداریہ)

اس وقت پاکستان معاشی طور پر غیر مستحکم ہے جس کیلئے اسے مالیاتی اداروں اور دوسرے ملکوں کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے اگر سرکاری سطح پر کفایت شعاری کا عمل شروع کر دیا جائے تو عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن سے چھٹکارا پانے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے اس وقت ملک بیرونی قرضوں پر جکڑا ہوا ہے قرضوں کی ادائیگی کیلئے بھی مزید قرضے لینے پڑتے ہیں اور یوں پاکستان قرضوں میں دھنستا چلا جا رہا ہے کسی بھی حکمران نے ملک کی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے سنجیدہ اقدامات نہیں کئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئی ایم ایف کے بعد اب عالمی بنک بھی پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کر رہا ہے عالمی بنک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں مہنگائی 1974ء کے بعد سب سے زیادہ رہی رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران 50 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے رپورٹ میں بتایا گیا کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے پیداواری لاگت میں کافی اضافہ ہوا مالی سال کی پہلی ششماہی میں شہری علاقوں میں توانائی کی افراط زر 50.6 فی صد رہی جبکہ گزشتہ سال اس عرصے میں شہری علاقوں میں توانائی کی افراط زر 40.6 فی صد تھی روپے کی قدر میں استحکام’ فصلوں کی پیداوار میں اضافے کے باوجود مہنگائی میں اضافہ ہوا عالمی بنک نے اس امر کا تقاضا کیا کہ سرکاری اداروں کی حکومتی امداد فوری محدود کرنے پر عمل کیا جائے ورلڈ بنک کی رپورٹ سے بادی النظر یہی عندیہ ملتا ہے کہ سرکاری سطح پر ہونے والے سرویز اور ماسوائے ادارہ شماریات کے تمام اندرونی اور بیرونی اداروں کی رپورٹیں مہنگائی میں کمی کے محض دعوے اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے مترادف ہے ادارہ شماریات تواتر کے ساتھ مہنگائی بڑھنے کی نشاندہی کرتا رہتا ہے جس پر کان نہیں دھرے جاتے حکومتی دعوئوں اور اقدامات کے باوجود مہنگائی عروج پر نظر آ رہی ہے، عالمی بنک کی رپورٹ حکومت کیلئے آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ ادارہ جاتی سطح پر اخراجات پر قابو پا کر اور حکومتی آسائشوں میں کمی کر کے مہنگائی پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے جس کا آئی ایم ایف اور عالمی بنک مطالبہ کر رہے ہیں وزیراعظم شہباز شریف نے بھی حکومتی اخراجات میں کمی کا اعلان کیا مگر بدقسمتی سے ابھی تک اس پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی جانب سے اداروں کے اخراجات کم کرنے کیلئے کہا جا رہا ہے جو ایک لحاظ سے پاکستان کو ڈکٹیشن دینے کے ہی مترادف ہے اگر حکومت خود ہی اعلان کردہ پالیسی پر عمل درآمد شروع کر دے تو کسی بیرونی ادارے یا ملک کی طرف سے ڈکٹیشن دینے کی نوبت ہی نہ آئے،، پاکستان میں ایک ایسا بااثر طبقہ موجود ہے جو مراعات یافتہ ہے جب تک ان سے مراعات واپس نہیں لی جاتیں مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے اس کیلئے حکومت کو سخت اقدامات کرنا ہوں گے بصورت دیگر عالمی بنک اور آئی ایم ایف کے مطالبات سامنے آتے رہیں گے اور حکمران بہ امر مجبوری عوام پر مالی بوجھ ڈالتے رہیں گے، جب عوام سڑکوں پر ہو گی تو ان کو سمجھانا آسان نہیں ہو گا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسا وقت آنے سے قبل ہی حکمران معاملات کو سمجھیں اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے مؤثر اقدامات کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں