10

ملکی استحکام کیلئے سیاسی قیادت میں اتفاق ناگزیر قرار (اداریہ)

پاکستان کو اندرونی وبیرونی طور پر مشکلات کا سامنا ہے سیاسی عدم استحکام’ کمزور معیشت’ مہنگائی میں اضافہ’ صنعتکاروں’ تاجروں’ کاروباری اداروں میں بے چینی ہے، عام آدمی مشکلات سے نجات کیلئے مقتدر حلقوں کی طرف نظریں لگائے ہوئے ہے مگر عوام کو نجات دہندہ نہ مل سکا ملکی استحکام اور بحرانوں سے نکلنے کیلئے سب سے بڑی ذمہ داری سیاسی قیادت کی ہے کہ وہ متحد ہو کر ملک میں سیاسی استحکام کیلئے کام کرے تاکہ اندرونی وبیرونی مسائل سے نمٹا جا سکے، بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا یہی وجہ ہے کہ مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اور ان کی سنگینی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، پاکستان کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات ناخوشگوار ہیں، سرحدوں پر کشیدگی ہے، ٹی ٹی پی کے دہشتگرد پاکستان کے خلاف سازشیں کر کے افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں ان حالات میں ہماری سیاست قیادت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی وذاتی اختلافات بھلائے اور ملکی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے کام کرے موجودہ سیاسی تنائو میں کوئی بھی سیاسی جماعت ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور جب تک سب اپنی اپنی انا کو ختم نہیں کریں گے اس وقت تک سیاسی بحران ختم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی معیشت کو ترقی کی پٹڑی پر چڑھایا جا سکے گا نہ ہی ملک میں جاری بحرانوں پر قابو پانے میں مدد مل سکے گی، پاکستان میں سیاسی قیادت کی سوچ ہی یہی ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ختم نہ ہو تاکہ ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کا موقع ملتا رہے سیاسی بحران ٹل گیا تو تعمیری کام ہو گا اور شائد تعمیری کام کوئی سیاسی قیادت کرنا نہیں چاہتی کسی کو یہ احساس ہی نہیں کہ ہمارا ملک ترقی کی دوڑ میں دنیا سے کتنا پیچھے چلا گیا ہے! 9مئی کا واقعہ ملکی تاریخ کا انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت واقعہ ہے دفاعی اداروں پر حملہ آور ہونے والے، اس کے لیے منصوبے بنانے والے اس بغاوت کے لیے سہولت کاری کرنے والے قومی مجرم ہیں جن کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہیے ایسے شرپسندوں کو کیفرکردار تک پہنچانا تمام ریاستی اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ ریاست پر چڑھائی کی جائے، دفاعی اداروں کو نشانہ بنایا جائے شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کی جائے اور پھر ایسی کارروائیوں پر ڈھٹائی سے قائم ہوں’ دفاعی اداروں پر الزام تراشی کریں، جھوٹی خبریں پھیلائیں، یہ سب چیزیں ملک کیلئے انتہائی نقصان کا باعث ہیں، کئی دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے والے پاکستان کو ان مہاجرین نے انتہائی نقصان پہنچایا ہے پاکستان میں رہ کر پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے افغان باشندوں کو جب افغانستان بھجوانے کیلئے ریاست حرکت میں آئی تو افغانستان حکومت بہت تلملائی مگر جب پاکستان نے افغان حکومت سے دہشت گردی میں ملوث ٹی ٹی پی اور دیگر گروپوں کے خلاف کارروائی کیلئے کہا تو انہوں نے وعدہ کے باوجود دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے کوئی عملدرآمد نہیں کیا جرمنی میں افغان شہریوں کی جانب سے پاکستانی سفارتخانے پر دھاوا بولنا کوئی معمولی جرم نہیں بلکہ اس کا اعلان ہے کہ افغان باشندے پاکستان کے خلاف اپنے اندر نفرت رکھتے ہیں، شرپسند، احسان فراموش، معتصب اور بھارتیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے پاکستان کے خلاف ایسی کارروائیاں کرنے والے افغانیوں کو چاہیے کہ عقل سے کام لیں پاکستان ان کا محسن ہے اور محسن کے ساتھ ایسا سلوک ہرگز نہیں کرنا چاہیے پاکستان نے برسوں افغانیوں کا بوجھ اٹھایا ہے وہ سیاسی قیادت جو افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی مخالفت کر رہی تھی ان کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے کیا انہیں ان شرپسندوں کے ساتھ اپنی ہمدردی پر نظرثانی نہیں کرنی چاہیے؟ پاکستان کے خلاف سازشوں میں بھارت کا ہاتھ ہے’ ایسے حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایک میز پر بیٹھ کر حالات کا جائزہ لیں اور ملک کو مشکلات سے نکالنے کیلئے متحد ہو کر پاکستان کے دشمنوں کو یہ پیغام دیں کہ ہم ملکی استحکام اور سالمیت کیلئے ایک ہیں جب تک سیاسی قیادت ذاتی اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق نہیں رکھے گی تو دشمنان پاکستان کی سازشیں جاری رہیں گی خدارا اب بھی سمجھ جائیں اور ملک وقوم کی خاطر اپنے اختلافات ختم کر دیں ملک میں سیاسی استحکام ہو گا تو غیر ملکی سرمایہ کاری ہو گی ملک خوشحال ہو گا عوام کی مشکلات کم ہوں گی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں