58

ملک میں قیادت کا بحران (اداریہ)

الیکشن کے انعقاد کے بعد تاحال ملک سیاسی استحکام کی جانب گامزن نہیں ہو سکا سیاسی جماعتوں کے تحفظات برقرار اپوزیشن جماعتیں تحریک چلانے کیلئے تیار حکومت سیاسی استحکام کیلئے کوشاں معاشی استحکام کیلئے منصوبہ بندی جاری ملک میں مہنگائی کا سدباب بھی نہ کیا جا سکا عوام کی بڑھتی ہوئی بے چینی نے مشکلات میں اضافہ کیا ہے صورتحال کو سنبھالا دینے کے بجائے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء عوام ریلیف کی منتظر ملک حالات بگڑتے جا رہے ہیں، ملک میں سب سے بڑا بحران قیادت کا ہے ہماری سیاسی قیادت ملکی مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے سیاستدان عوام سے ان کے مسائل حل کرنے کے وعدے اور بڑے بڑے دعوے کر کے ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں مگر اقتدار میں آ کر سب کچھ بھلا دیتے ہیں گزشتہ 40برسوں میں عوام کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے بدقسمتی سے جو حکمران بھی اقتدار میں آئے وہ فیصلہ سازی کی بنیادی صلاحیت سے محروم تھے’ نہ ہی وہ عوام کے دُکھ درد کو سمجھتے تھے نہ عام آدمی کی بہتری ان کی ترجیح رہی اگر حکمران ملک وقوم سے مخلص ہوتے تو عوام کے مسائل حل ہو چکے ہوتے طویل عرصہ گزرنے کے باوجود آج تک ملک میں صحت وتعلیم کے مسائل اپنی جگہ موجود ہیں، سفری سہولیات کے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق نہیں نہ ہی حکمرانوں کو عام آدمی کی مشکلات کا اندازہ ہے 2024ء میں بھی ہم کھانے پینے کی اشیاء کی قلت کا شکار ہیں ادویات کی کمی اور مہنگی ادویات کے مسائل تھمنے کا نام نہیں لیتے، عوام میں بے چینی پھیلنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کبھی کوششیں کی ہی نہیں کی گئیں حکمرانوں کی دسترس میں ہر شے ہوتی ہے لہٰذا ان کو غربا یتیموں’ مساکین’ وسائل سے محروم افراد کے مسائل کیا معلوم کیونکہ انہوں نے کبھی آٹا’ گھی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت دیکھی ہی نہیں نہ کبھی بچوں کی تعلیم اور صحت بارے فکرمندی رہی نہ مکان کا کرایہ نہ رکشہ ٹیکسی کے کرایہ کا معلوم ہے، اگر قیادت نچلی سطح سے اوپر آتی تو ان کو عام آدمی کے مسائل کا یقینا علم ہوتا اعلیٰ طبقوں سے تعلق رکھنے والی ملک کی سیاسی قیادت ملکی مسائل سمجھنے’ حل کرنے اور وسائل میں اضافے کی منصوبہ بندی وحکمت عملی تیار کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے ملک کی قیادت کرنے والے وطن عزیز کے کروڑوں انسانوں سے انصاف کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے، ہمارا دین ہمیں بتاتا ہے کہ حکمران عوام کے خادم ہوتے ہیں مگر ہماری قیادت حکومت میں آتے ہی سکیورٹی لیتے ہیں راستے بند کرتے ہیں عوام کی خدمت کا نعرہ لگا کر آنے والے عام آدمی سے ملنا بھی پسند نہیں کرتے اگر یہ عام آدمی کے نمائندے ہیں تو ان کو عام آدمی کی طرح سڑکوں پر آزادی سے گھومنا چاہیے تاکہ یہ عام آدمی کے مسائل کو قریب سے دیکھ سکیں اور ان کو حل کرکے ان کی بے چینی کا سدباب کر سکیں، ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ایسی لیڈرشپ کا فقدان ہے جس کی ملک وقوم تقاضا کرتی ہے پوری دنیا میں لیڈروں کا تعلق عموماً بڑے گھرانوں سے ہوتا ہے یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں یہ جب سیاست میں آتے ہیں تو یہ سادگی اور غریب پروری کا تحفہ ساتھ لے کر آتے ہیں یہ عام آدمی کی صرف باتیں نہیں کرتے بلکہ یہ عام آدمی نظر بھی آتے ہیں جبکہ ہمارے ملک کی لیڈرشپ میں یہ صلاحیت موجود نہیں اس وقت ملک میں تین بڑی سیاسی جماعتیں ہیں مگر ان تینوں کی لیڈرشپ صرف خود کو مضبوط کرنے اور مخالفین کو دیوار سے لگانے میں مصروف رہتی ہیں اس ملک کو ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو ملک وقوم کی ترقی وخوشحالی اور معیشت کے استحکام کیلئے کمرکس لے اور پھر جب تک اپنے اہداف حاصل نہ کر لے اپنی کارکردگی کا ڈھنڈورا نہ پیٹے ملک میں جب تک سیاسی قیادت کا بحران رہے گا اس کی ترقی وخوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ممکن نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں