24

ملک میں مہنگائی کا طوفان ‘ عوام پریشان

اسلام آباد (بیوروچیف) لگ بھگ ایک سال قبل عمران خان کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ایک کامیاب عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں ختم ہوئی تو پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں سیاسی جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم اتحاد نے اس تحریک کو لانے کی پس پردہ بڑی وجوہات میں ملک میں مہنگائی اور عام آدمیوں پر اس کے اثرات کو قرار دیا۔تحریک انصاف کی حکومت نے اپنا اقتدار ختم ہونے سے چند ماہ قبل ملک میں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کرتے ہوئے اسے آئندہ کئی ماہ تک برقرار رکھنے کا اعلان کیا اور پی ڈی ایم رہنماں کے مطابق یہ اور اس نوعیت کے دیگر کئی معاشی فیصلے پاکستان کی معیشت کی مزید بدحالی کا باعث بنے۔گذشتہ برس10 اپریل کو جب شہباز شریف نے وزیرِ اعظم کا حلف اٹھایا تو انھوں نے اپنی پہلی تقریر میں اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کو موجودہ معاشی صورتحال سے نکالیں گے اور غریب عوام کو ریلیف دینے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔تاہم اس کے برعکس گدشتہ ایک برس کے دوران سیاسی عدم استحکام اور بگڑتی معاشی صورتحال نے ملک میں مہنگائی کے این نئے طوفان کو جنم دیا ہے۔اتحادی حکومت کے ایک سال کے دورِ حکومت میں مختلف معاشی اشاریوں میں تنزلی دیکھی گئی جن میں روپے کی قدر میں کمی، ڈیزل و پیٹرول کی قیمتوں اور شرح سود کا ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح پر پہنچنا، درآمدات پر پابندی اور ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے اقتصادی شعبے کو بڑے نقصانات شامل ہیں۔اس صورتحال کے باعث بہت سے حلقوں کی جانب سے اب یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آیا تحریک انصاف کے خاتمے کے وقت ملکی معیشت واقعی اس نہج تک پہنچ چکی تھی کہ اس پر قابو پانا ایک سال کے قلیل عرصے میں ممکن نہیں تھا یا آیا موجودہ حکومت سیاسی مفادات پر مبنی اس نوعیت کے فیصلے کیے جو مزید خرابی کا باعث بنے؟گذشتہ ایک برس کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ایک سو روپے سے زیادہ کی کمی ہوئی ہے۔پاکستان میں شرح سود میں ساڑھے نو فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، پیٹرول و ڈیزل کی قیمت میں تقریبا 150 روپے کا اضافہ ہوا اور ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 10.5 ارب ڈالرز سے کم ہو کر 4.2 ارب ڈالرز رہ گئے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد سے بڑھ کر 35 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں اس تمام صورتحال کا ذمہ دار تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کو قرار دیتی ہیں۔دوسری جانب معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے افراد مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحاق ڈار کو وزیرِ خزانہ بنانے کے فیصلے پر بھی تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ہم نے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ کیا ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کی وجہ اتحادی حکومت کے ایسے فیصلے ہیں جن میں معاشی پہلوں کی بجائے مبینہ سیاسی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا؟ملکی معیشت اور عوام کو گذشتہ ایک سال کے دوران بدترین معاشی صورتحال نے کیسے متاثر کیا، آئیے جانتے ہیں کہ اس پر ماہرین کی کیا رائے ہے۔گذشتہ سال اپریل میں پاکستان مسلم لیگ ن کی سربراہی میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت نے پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کو کم کرنے کے دعوے کیے تھے اور قیام کے چند دن بعد تک ڈالر کی قیمت میں معمولی کمی بھی دیکھی گئی۔تاہم اس کے بعد ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے نے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور آج ڈالر کی قیمت 285 روپے کی سطح تک پہنچ چکی ہے۔موجودہ حکومت کے قیام کے ایک سال میں ڈالر کی قیمت میں ایک سو روپے تک اضافہ ریکارڈ کی گیا ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف نو اپریل 2022 کو کامیاب ہونے والی تحریک عدم اعتماد سے ایک دن قبل کاروباری ہفتے کے اختتام پر پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 184.68 روپے کی سطح پر بند ہوئی تھی جو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئے کاروباری ہفتے کے آغاز پر 182.93 روپے کی سطح تک گر گئی تھی۔گیارہ اپریل سے لے کر گیارہ مئی تک ایک مہینے تک ڈالر اور روپے کے درمیان ایکسچینج ریٹ 180 سے 186 تک برقرار رہا جس میں معمولی اتار چڑھا ہوتا رہا تاہم اس کے بعد ڈالر کی قیمت میں اضافے کا رجحان ریکارڈ کیا گیا اور ڈالر 190 روپے کی حد کو عبور کر کے 19 مئی 2022 کو 200 روپے کی سطح پر پہنچ گیا۔پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر اور بیرونی ذرائع سے کوئی قابل ذکر فنانسنگ حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ڈالر کی قیمت جون کے مہینے کے وسط تک 210 روپے کی سطح عبور کر گئی۔ اس کے بعد اس میں مسلسل گراوٹ دیکھی گئی اور جولائی کے اختتام پر یہ اس وقت 239.94 روپے کی سطح پر پہنچ گئی جو اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح تھی۔آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے موجودہ حکومت کے اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے ایکسچینج ریٹ میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں یہ اضافہ دیکھا گیا تاہم یہ قیمت دو ہفتوں میں 215 روپے کی سطح پر گر گئی جب آئی ایم ایف پروگرام بحالی پر مثبت پیش رفت دیکھی گئی۔گذشتہ سال ستمبر کے مہینے میں ڈالر کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ دیکھا گیا اور یہ 239 کی سطح پر پہنچ گیا تاہم ستمبر کے اخری عشرے میں مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحاق ڈار نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا تو انھوں نے ڈالر کی قیمت میں کمی لانے کا دعوی کیا۔ان کے اس دعوے کے بعد ڈالر کی قیمت میں کمی ریکارڈ کی گئی اور ڈالر کی قیمت چند دنوں میں 220 روپے کی سطح سے نیچے آگئی تاہم ماہرین کی جانب سے ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی قرار دیا گیا کیونکہ اس وقت بلیک مارکیٹ ڈالر 260 روپے سے اوپر بک رہا تھا۔مصنوعی طریقے سے ایکسچینج ریٹ پر کنٹرول کو اس وقت ختم کرنا پڑا جب آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے مذاکرات شروع ہونے سے چند دن قبل 26 جنوری 2022 کو فری ایکسچینج ریٹ کی وجہ سے ڈالر کی قیمت ایک دن میں 230 روپے سے 255 روپے تک جا پہنچی اور اس سے اگلے دن 262 روپے اور اسے اگلے چند روز میں 275 روپے تک جا پہنچی۔ڈالر کی قدر کے اتار چڑھا پر ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ گذشتہ حکومت نے جاتے ہوئے جو اقدامات کیے اس سے سب سے زیادہ نقصان آئی ایم ایف کے پروگرام کا ختم ہونا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ مگر اتحادی حکومت کی جانب سے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنانا ایک سنگین غلطی تھی، اس کے بعد سے بہت سے غلط فیصلے لیے گئے۔ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق اسحاق ڈار کی جانب سے آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن نہ لینے جیسے سیاسی بیانات نے معیشت کو نقصان پہنچایا۔ دوسری سب سے زیادہ نقصان دہ پالیسی روپے کی قدر کو مصنوعی طریقے سے بڑھا کر رکھنے کی کوشش کرنا تھا۔ایک وقت ایسا تھا کہ مارکیٹ میں روپے کی تین قدریں تھی، ایک انٹربینک، ایک اوپن مارکیٹ اور ایک بلیک مارکیٹ۔اقتصادی امور کے ماہر اور سابقہ حکومت کے معاشی امور کے ترجمان مزمل اسلم نے الزام عائد کیا کہ اتحادی حکومت نے دنیا کو پاکستان کی معاشی صورتحال کی غلط تصویر پیش کی۔وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ملک چھ فیصد سے ترقی کر رہا تھا جبکہ انھوں نے دنیا کو چار فیصد بتایا۔ ملک کا خسارہ ساڑھے 12 ارب ڈالر تھا نے اسے اگلے تین ماہ میں ساڑھے 22 ارب ڈالر ہونے کا بتایا۔اس کے بعد دنیا کو محسوس ہوا کہ ملک کا خزانہ خالی ہو جائے گا تو ڈالر کے ریٹ میں تیزی آئی۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنایا جانا اور مارکیٹ میں غلط پیغامات اور معاشی اشاریوں میں غلط بیانی کرنا ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجوہات ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں