162

ملک کو کب تک قرضوں پر چلایا جائے گا؟ (اداریہ)

پاکستان کی جانب سے 3ارب ڈالر قرض کا قلیل مدتی قرض پروگرام کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد نئے بڑے قرض پروگرام پر مذاکرات کیلئے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان شیڈول طے پا گیا، آئی ایم ایف مشن رواں ماہ کی 15تاریخ کو بات چیت کیلئے پاکستان پہنچے گا وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق قرض کا نیا پروگرام 6سے 8 ارب ڈالر اور دورانیہ 3سال یا اس سے زیادہ ہو سکتا ہے قرض کا نیا پروگرام آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر ملنے کا امکان ہے حکومت کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے مزید سخت فیصلے کرنا ہونگے ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانا ہو گا، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کرنا ہو گی، پاکستان کو اہم معاشی چیلنجز کا سامنا ہے، تاجر دوست اسکیم ناکام ہو چکی’ ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں حالیہ کمی پر آئی ایم ایف کو مطمئن کرنا چیلنج ہو گا،، پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے سارا ملک بیرونی قرضوں پر چل رہا ہے ہر پاکستانی یہ پوچھ رہا ہے کہ آخر ہمارے حالات کب بہتر ہوں گے ہم کب مشکلات سے نکلیں گے؟ کون تعین کرے گا کہ ”نومور قرض” کون ملک کو معاشی غلامی سے نکالنے کیلئے آگے آئے گا کون ہے جو مافیا سے ٹکر لے گا ہم لگ بھگ 25کروڑ لوگ ہیں مگر قرضوں میں ڈوبے ہیں دنیا کیا سوچتی ہو گی کہ ہم کہاں کھڑے ہیں کب تک ہم ملک کو قرضوں پر چلاتے رہیں گے؟ ملکی اخراجات میں کوئی توازن نہیں اور اس کی ذمہ دار سیاسی قیادتیں ہیں اخراجات میں اضافہ ہوتا رہا مگر وسائل میں اضافہ نہیں کیا جا سکا آسان طریقہ یہی نکالا جاتا رہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرض لیکر ملک کو چلایا جائے اور آج تک یہی ہوتا چلا آ رہا ہے سابق حکومت پی ٹی آئی نے بھاری قرضے لئے اس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت آئی وہ بھی قرضوں پر چلتی رہی نگران وفاقی حکومت نے بھی قرضے لئے آٹھ فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد مخلوط حکومت قائم ہوئی اور یہ حکومت بھی نظام چلانے کیلئے آئی ایم ایف کی سخت شرائط تسلیم کرتے ہوئے قرضوں کے حصول کیلئے مصروف ہے وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے قرض کے نئے پروگرام کیلئے مذاکرات کیلئے شیڈول طے پا گیا ہے نیا قرض 6سے 8ارب ڈالر اور اس کی ادائیگیوں کے لیے 3سال یا اس سے زیادہ عرصہ مل سکتا ہے لیکن نیا پروگرام بھی آسان نہیں ہو گا آئی ایم ایف کڑی شرائط کے ساتھ قرضہ دے گی اور حکومت بجلی’ گیس’ پٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر اشیاء کے نرخوں میں اضافہ کر کے آئی ایم ایف کو خوش کرے گی ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کیلئے ایف بی آر نے ہمیں بلاک کرنے کی منظوری دی ہے جو کسی طور بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہو گی کیونکہ جب موبائل فون کمپنیوں کا کاروبار متاثر ہو گا تو اس کا بھی حکومت کو نقصان پہنچے گا ملک کے اصل مسائل سے حکمران توجہ ہٹائے ہوئے ہیں معیشت کی بہتری کیلئے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں ملک کے صنعتکار دوسرے ہمسایہ ممالک میں انڈسٹری لگا رہے ہیں کاروباری طبقہ کیلئے بنائی گئی پالیسیاں بجائے فائدہ کے الٹا نقصان کا باعث بن رہی ہیں ہر حکومت اپنا عرصہ اقتدار پورا کرتی رہی مگر ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کیلئے اقدامات نہیں اٹھا سکی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم مالیاتی اداروں کے جال میں پھنس گئے آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم مالیاتی اداروں کی مرضی کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے’ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سولہ ماہ کی حکومت کے دوران آئی ایم ایف سے معاہدہ کی بدولت پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا گیا ملکی معیشت کی بہتری کیلئے سخت فیصلے کئے ملک کی ترقی کیلئے جان لڑائیں گے وزیراعظم کا عزم قابل تعریف ہے اﷲ کرے وہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہوں، اس وقت ملک کو معاشی بحران سے بچانا ہی مقصد ہونا چاہیے، کاش ہمارے ملک میں وہ وقت جلد آئے جب ملک کا کوئی شہری مقروض نہ ہو کیونکہ مقروض قوم کی ترقی ناممکن ہے جب ہم غیروں کے رحم وکرم پر ہوں گے تو کیسے ترقی کریں گے ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں ملکر ملک کی ترقی اور معاشی بحران سے نکالنے کیلئے ایک ہو جائیں اگر سیاسی عدم استحکام جاری رہا تو پھر غیر ملکی قرضوں سے ہماری جان نہیں چھوٹ سکتی اور ہم مالیاتی اداروں کی سخت شرائط ماننے پر مجبور ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں