4

منشیات فروشوں کی شامت

پنجاب میں سی سی ڈی سمیت چوکی’ تھانوں کی پولیس نے منشیات فروشوں سے جو سلوک اختیار کیا ہے وہ بہت پہلے ہونا چاہیے تھا مگر یہ اقدام ”دیرآید، درست آید” کے مصداق درست ہے، میں ماورائے قانون، ماورائے عدالت ہلاکتوں کے حق میں نہیں ہوں اور اس قسم کے معاملوں کیخلاف ہمیشہ آواز اٹھائی ہے، مبینہ پولیس مقابلوں میں ہلاکتوں کیخلاف انہی کالموں میں لکھا جا چکا ہے، پولیس مقابلوں پر لوگوں میں پائے جانیوالے شکوک وشبہات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں’ جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان مبینہ پولیس مقابلوں جرائم پیشہ لوگ ہی کیوں مارے جاتے ہیں اور اکثر مواقع پر پولیس اہلکاروں کو خراش تک کیوں نہیں آتی، لوگوں کا خیال ہے کہ دوطرفہ فائرنگ کے تبادلے میں ایسا ہونا ناممکن سی بات ہے البتہ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کئی پولیس مقابلوں میں بہادر اہلکاروں نے جرائم پیشہ افراد کا جرات مندی سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور محکمہ پولیس کے کئی بہادر ملازمین ان مقابلوں میں زخمی بھی ہو چکے ہیں، اس صورتحال میں لوگ مبینہ پولیس مقابلوں کے بارے تذبذب کا شکار ہیں اور میں نے بھی اسی بناء پر کئی بار ماورائے قانون’ ماورائے عدالت ہلاکتوں کیخلاف آواز اٹھائی ہے مگر منشیات فروشوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر ہر طرف سے یہی آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ اچھا ہوا جو ان ناسوروں کی شامت آ گئی ہے، فیصل آباد میں گزشتہ 2دنوں میں 8مبینہ پولیس مقابلوں میں دو بھائیوں سمیت تین منشیات فروش ہلاک جبکہ چھ زخمی حالت میں گرفتار کر لئے گئے، سی سی ڈی ہیڈ کوارٹر کے انچارج سید ارم شاہ اور مدینہ ڈویژن کے انچارج علی اکرام گورائیہ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ بلوچ والا کے قریب چھاپہ مارا تو منشیات فروشوں نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کر دی جبکہ پولیس کی جانب سے حفاظت خود اختیاری کے تحت فائرنگ کی گئی جس کے رُکنے پر سرچ آپریشن کیا گیا تو دو افراد زخمی حالت میں پڑے تھے جن کی شناخت گلفام عرف گلو اور فرزان عرف فانی کے ناموں سے ہوئی، دونوں کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا مگر وہ راستہ میں ہی جان کی بازی ہار گئے جبکہ مدینہ ڈویژن کے علاقہ باوا چک سیم کے قریب یونیورسٹیوں میں طالب علموں کو آئس فروخت کرنے والا بدنام زمانہ منشیات فروش عرفان عرف کدو بھی مبینہ پولیس مقابلے میں اپنے انجام کو پہنچ گیا، 6منشیات فروشوں کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا ہے، مارے جانیوالے اور گرفتار منشیات فروش کے قبضہ سے منشیات اور ناجائز اسلحہ برآمد ہوا ہے اور یہ ریکارڈ یافتہ اور پولیس کو درجنوں مقدمات میں مطلوب تھے، ان حالات و واقعات سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ منشیات فروش ہمارے معاشرے میں ناسور کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور یہ بدقماش لوگ سکولز’ کالجز اور یونیورسٹیوں میں بھی طالب علموں کی رگوں میں زہر اتار کر ملک وقوم کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں، منشیات فروشوں نے کئی عورتوں کو بھی اپنا آلہ کار بنا رکھا ہے اور ان کے ذریعے مختلف جگہوں پر منشیات سپلائی کی جا رہی ہیں، محکمہ پولیس میں کئی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو رشوت وصول کر کے ان لوگوں سے نرم سلوک اختیار کرتے ہیں، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اچھے اور برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، محکمہ پولیس میں ذمہ دار اور فرض شناس ملازمین کی بھی کمی نہیں اور یہی لوگ معاشرے کے ان ناسوروں کو سخت سلوک کے ذریعے کیفرکردار تک پہنچا رہے ہیں، بلاشبہ! منشیات فروش کسی رعایت کے ہرگز مستحق نہیں مگر اس بات کا مکمل دھیان رکھا جانا بیحد ضروری ہے کہ ان کیخلاف کارروائی ٹھوس شواہد کی بناء پر کی جائے تاکہ کسی بے گناہ کو ناکردہ گناہ کی سزا نہ ملے، کسی کے ساتھ بھی ظلم وزیادتی نہیں ہونی چاہیے اور جو ناسور اس مکروہ دھندے میں ملوث ان کے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے، وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کی ہدایت پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور سی سی ڈی پنجاب کے سربراہ’ ایڈیشنل آئی جی سہیل ظفر چٹھہ نے منشیات فروشی کے قلع قمع کی ٹھان رکھی ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ منشیات فروشوں کو اس طرح صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیے کہ ان کی آنیوالی نسلیں بھی یاد رکھیں اور کوئی بھی اس مکروہ دھندے میں ملوث ہونے بارے سوچ بھی نہ سکے، یہ بات نہایت کربناک ہے کہ منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال قوم کیلئے زہرقاتل بن چکا ہے، نشہ کا عادی فرد نہ صرف اپنے گھرانے بلکہ دوسرے لوگوں کے لیے دردسر بن جاتا ہے’ تمام نشہ آور اشیاء کے انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں، نشہ حافظے کی کمزوری اور دیگر اعصابی امراض کیساتھ ساتھ گردوں اور جگر کیلئے انتہائی مہلک ہے، ماضی کی نسبت آج تعلیم عام ہو چکی ہے لیکن آج کے نوجوان اس شعور سے محروم ہیں کہ نشے جیسی بیماری سے نہ صرف وہ خود اپنی زندگی برباد کرتے ہیں بلکہ ان کے اہلخانہ، حتیٰ کہ معاشرے پر بھی اس کے نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، منشیات فروشوں نے ہمارے تعلیمی اداروں کو بھی نہیں بخشا اور وہ نوجوان جنہیں تعلیم یافتہ بن کر ایسی برائیوں کے تدارک میں متحرک کردار ادا کرنا چاہیے وہ خود اس کا شکار ہونے لگے ہیں، حکومت اور تعلیمی اداروں کے اساتذہ علاوہ ماں باپ کو بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کا مکمل احساس کرنا ہو گا، صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ کئی میڈیکل سٹور مالکان سرعام نشہ آور انجکشن اور ادویات فروخت کر رہے ہیں لہٰذا ان کیخلاف سخت اقدامات اٹھانا ضروری ہے، یہ بات خوش آئند ہے کہ RPO فیصل آباد سہیل اختر سکھیرا نے منشیات فروشی اور قمار بازی کو اپنی ”ریڈلائن” قرار دیا ہے، فیصل آباد میں گزشتہ 2دنوں کے دوران 8مبینہ پولیس مقابلوں میں تین منشیات فروشوں کی ہلاکت اور چھ کو زخمی حالت میں گرفتار کرنا ان کے پختہ عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے، اﷲ کرے کہ ہمارے معاشرے سے منشیات فروشی کا قلع قمع کرنے کیلئے مصروف عمل تمام لوگ اس عظیم مقصد میں کامیاب ہوں اور نوجوان نسل کے محفوظ مستقبل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں