35

موجودہ حالات میں میثاق معیشت ناگزیر قرار (اداریہ)

اس وقت پاکستان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے ان سب میں بڑا چیلنج معیشت کی بحالی ہے جس کیلئے موجودہ حکومت بہت جتن کر رہی ہے بیرونی سرمایہ کاری اور اندرونی سرمایہ کاری کیلئے حکومت مراعات سمیت ایک ہی چھت تلے تمام دستاویزی کام ممکن بنا رہی ہے تاکہ سرمایہ کاری کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ وقت کا ضیاع روکا جا سکے اور معیشت کو بحال کیا جا سکے بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے ملک میں موجود معدنی وسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا اور صرف آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضے لیکر ملکی انتظام چلانے کو ترجیح دی جس کے باعث ہم مالیاتی اداروں کے غلام بن چکے ہیں وزیراعظم شہباز شریف نے وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد معیشت کی بحالی کیلئے عزم صمیم کیا تھا کہ ہم آئی ایم ایف سے چھٹکارا چاہتے ہیں کوشش ہو گی کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ نہ جانا پڑے مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم قرضہ لینے کیلئے آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کر کے اپنے ہی عوام کو زندہ درگور کرنے کے درپے ہیں بجلی مہنگی’ گیس کے نرخوں میں اضافہ بے لگام مہنگائی’ بدامنی’ دہشت گردی’ سیاسی عدم استحکام ہماری جان نہیں چھوڑ رہے، ٹیکسوں کی بھرمار سے کاروباری طبقہ بے چینی میں مبتلا ہے زراعت زبوں حالی کا شکار ہے انڈسٹری پر جمود طاری ہے بے روزگاری کا عفریت انسانی جانیں نگل رہا ہے، کم آمدن والے افراد کی زندگی مشکلات کا شکار’ تعمیراتی کام’ پرا پرٹی کے کاروبار سے منسلک افراد حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہیں’ غریب کا کوئی پرسان حال نہیں’ حکومت آئی ایم ایف کو ادائیگیاں کرنے کیلئے فکرمند ہے محاصل بڑھانے کیلئے ایف بی آر افسران پر دبائو ہے حکومت معیشت کو مزید سانسیں مہیا کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے 7بلین ڈالر کا بیل آئوٹ پیکج لینا چاہتی ہے تاکہ ملکی نظام چلانے کے ساتھ ساتھ ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھا جا سکے چونکہ آئی ایم ایف نے شرائط طے کی تھیں کہ پہلے باقی ماندہ ادائیگیوں کا انتظام کریں اس کے بعد بیل آئوٹ پیکج منظور کیا جائے گا لہٰذا حکمران عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے پر مجبور ہے دوسری جانب عوام حکومت سے ریلیف کی امید رکھتی ہے مگر اسے ریلیف ملنا تو درکنار اس پر زندگی مزید تنگ کی جا رہی ہے، حکومت سعودی عرب’ متحدہ عرب امارات اور چین سے قرض رول اوور کرانے کیلئے کوشاں ہے معیشت کی بہتری اور خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کیلئے اقدامات کی مخالفت کرنے والے بھی معیشت کے استحکام میں رکاوٹ بنے ہوئے ہے پی آئی اے’ پاکستان اسٹیل ملز’ پاور کمپنیاں یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن’ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری سے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں کس حد تک حکومت کو مدد مل سکتی ہے مگر ان اداروں کے ملازمین اور جن سیاسی شخصیات نے ان اداروں میں اپنے ورکرز کو ایڈجسٹ کرایا وہ نجکاری کی مخالفت میں سب سے آگے ہیں ایسے میں معیشت کیسے سنبھل سکتی ہے؟ حکومت کی تاجر دوست اسکیم بھی ناکام ہو چکی ہے جب بھی ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بات ہوتی ہے یا پھر تاجروں وکلاء ڈاکٹرز اور پراپرٹی کا کام کرنے والوں پر انکم ٹیکس عائد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ لوگ حکمرانوں کو بُرا کھلا کہنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس نہ دینے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں ایف بی آر نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے موبائل فون سموں کو بند کرنے سمیت بینکوں میں اکائونٹ ہولڈرز کی رقوم کی پڑتال کر کے ٹیکس عائد کرنے سمیت دیگر فیصلے کئے تاحال اس معاملے میں بھی ایف بی آر کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی حکومت نے کفایت شعاری مہم بھی شروع کی قومی خزانے پر بوجھ کم کرنے کیلئے کئی وفاقی اداروں کو دیگر اداروں میں ضم کرنے اور رائٹ سائزنگ کا فیصلہ بھی کیا گیا جس کے مثبت نتائج کی توقع ہے لیکن ہمارے خیال میں ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ ”میثاق معیشت” بھی ناگزیر ہے ملک کی تمام سیاسی قیادتیں اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میثاق معیشت پر دستخط کریں اور یہ طے کریں کہ خواہ کوئی بھی حکومت آئے معیشت سے متعلق کئے گئے فیصلوں پر سیاست نہیں کی جائے گی، صنعتکاروں تاجروں’ ریئل اسٹیٹ سیکٹر’ زراعت کے شعبہ سے وابستہ افراد’ وکلائ’ ڈاکٹرز سمیت وہ تمام افراد جن کی آمدنی قابل ٹیکس ہے کو ٹیکس دینا ہو گا کوئی بھی حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے سڑکوں پر آئے گا تو اس کا ساتھ نہیں دیا جائے گا سیاست چمکانے کی کوشش نہیں کی جائے اگر ہم سب یہ تہیہ کر لیں کہ ملک کی ترقی اور معیشت کی مضبوطی کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے تو ہمارا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہو سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں