97

موسمیاتی تبدیلی اور صحیح خوراک کا انتخاب

دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی ایک سنجیدہ اور فوری توجہ طلب مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو اس تبدیلی سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان گزشتہ دو دہائیوں میں 173سے زائد موسمیاتی آفات جیسے کہ شدید گرمی، سیلاب، خشک سالی اور طوفانی بارشوں کا سامنا کر چکا ہے۔ماہرین ماحولیات اس بات پر متفق ہیں کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان میں خوراک اور پانی کے بحران مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔ زرعی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں، زیرِ زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے جا رہی ہے اور درجہ حرارت میں اضافہ فصلوں کی پیداواری صلاحیت کو متاثر کر رہا ہے۔ ان عوامل نے کسانوں اور شہروں میں بسنے والے لوگوں کی روزمرہ زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔موسمیاتی تبدیلی کا سب سے نمایاں اثر ہماری خوراک کی پیداوار، دستیابی اور معیار پر پڑ رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال زرعی پیداوار میں 10سے 15فیصد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ خاص طور پر گندم، چاول، کپاس، مکئی اور چینی جیسی فصلیں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ ان اثرات کی وجہ سے نہ صرف کسانوں کی زندگی متاثر ہو رہی ہے بلکہ عام شہری کو بھی مہنگائی اور غذائی قلت کا سامنا ہے۔ میں پاکستان نے اپنی پہلی قومی غذائی تحفظ پالیسی کو متعارف کرایا تھا۔ جس کا مقصد موثر، منافع بخش، موسم کے خلاف لچکدار اور مقابلے کی صلاحیت کے حامل زرعی شعبے کے ذریعے غذائی دستیابی میں اضافہ تھا۔ پاکستان نے قومی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں اور غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے کے لیے ایک جامع پالیسی فریم ورک تشکیل دیا ہے۔ تاہم صوبائی سطح پر فنڈز کی کمی کی وجہ سے بہت سی پالیسیوں کے نفاذ میں خلا ہے۔ نیویارک عالمی بینک نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھرمیں خوراک کے عدم تحفظ میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں تقریبا 29کروڑ 50لاکھ افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر یہ تسلیم کیا جا چکا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سینمٹ نے کے لیے خوراک کے شعبے میں پائیداری اپنانا نہایت ضروری ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹس میں بھی زور دیا گیا ہے کہ خوراکی نظام کو پائیداربنانے سے نہ صرف ماحولیاتی تحفظ ممکن ہے بلکہ عوامی صحت میں بھی بہتری آتی ہے۔ ایسے حالات میں ”پائیدار خوراک” کا تصور بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ پائیدار خوراک کا مطلب ہے ایسی خوراک جو قدرتی وسائل کو نقصان پہنچائے بغیر اگائی جائے اور جو ماحولیاتی توازن کو برقراررکھنے میں مدد دے۔ ہمیںاپنی خوراک میںمقامی، موسمی، نباتاتی اور قدرتی اجزاکو ترجیح دینی چاہیے۔ ایک تحقیق سے پتا چلا کہ پاکستان میں 60% شہری صارفین موسمیاتی تبدیلی سے آگاہ ہیں مگر صرف 22% صارفین پائیدار خوراک کے تصور سے واقف ہیں۔تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ پودوں پر مبنی خوراک جیسے دالیں، سبزیاں، پھل اور اناج کا استعمال ماحول کے لیے بہتر ہے۔ ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ کے مطابق گوشت اور ڈیری مصنوعات کی پیداوار سے عالمی سطح پر گرین ہاس گیسز کے اخراج میں 14.5 فیصد حصہ آتا ہے۔ اگر ہم گوشت کے استعمال میں کمی کریں تو کاربن فٹ پرنٹ میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔عالمی ادارہ برائے تحفظِ قدرت کے مطالعے کے مطابق اگر پاکستانی شہری صرف ہفتے میں دو دن گوشت کا استعمال ترک کریں تو سالانہ 5 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی ممکن ہے۔ جو تقریبا اتنی مقدار ہے جتنی پاکستان کی تمام نجی گاڑیاں ایک سال میں خارج کرتی ہیں۔ یہ تبدیلی صرف ماحول دوست ہی نہیں بلکہ صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہو سکتی ہے۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مقامی سطح پر اگنے والی موسمی غذائیں نہ صرف کم خرچ ہوتی ہیں بلکہ ان کی تیاری اور نقل و حمل کے دوران ایندھن اور توانائی کا استعمال بھی کم ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے آلودگی میں کمی آتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مارکیٹ میں دستیاب قدرتی، موسمی اور مقامی غذاں کی طرف رجوع کریں اور درآمد شدہ یا غیر ضروری طور پر پروسیسڈ اشیا کی بجائے سادہ غذا کو اپنائیں۔گلگت بلتستان اور ہنزہ جیسے علاقوں میں مقامی اور سادہ خوراک کا استعمال آج بھی عام ہے۔ جیسے خشک خوبانیاں، دالیں، جو اور مقامی سبزیاں۔ یہ غذائیت سے بھرپور ہیں اور ان کہ تیاری میں ماحول پر کم دبا پڑتا ہے۔ عالمی فطرت فنڈ کے ایک منصوبے “ری تھنک یور پلیٹ” کے تحت کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں نوجوانوں کو سکھایا گیا کہ وہ اپنی روزمرہ خوراک کو ماحول کے لحاظ سے زیادہ مثر کیسے بنا سکتے ہیں۔اس ضمن میں حکومتِ پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ پالیسی بنانے پر اقدامات کرے۔ جیسے کہ ماحول دوست زرعی تکنیک کو فروغ دینا، کسانوں کو ماحولیاتی تبدیلی سے ہم آہنگ تربیت فراہم کرنا اور ایسے پروگرامز کا آغاز کرنا جو پائیدار خوراک کے استعمال کو عام کریں۔ میڈیا، تعلیمی ادارے اور معاشرتی تنظیمیں اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ماحولیاتی تحفظ کے لیے ہمیں کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی لانا ہوگی۔ اسکولوں، کالجز اور میڈیا کے ذریعے عوام میں آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ لوگ یہ سمجھ سکیں کہ ان کے روزمرہ کے کھانے کا انتخاب ماحولیاتی تبدیلی پر کتنا اثر ڈال سکتا ہے۔کلائمیٹ چینج کونسل آف پاکستان کی حالیہ قومی مشاورت میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پائیدار خوراک کو قومی پالیسی کا حصہ بنایا جائے تاکہ صحت مند معاشرہ اور ماحولیاتی توازن قائم رکھا جا سکے۔ اگر ہم سب مل کر صحیح خوراک کا انتخاب کریں تو نہ صرف اپنی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے زمین کو محفوظ بھی رکھ سکتے ہیں۔یاد رکھیں!موسمیاتی تبدیلی ایک ماحولیاتی ہی نہیں بلکہ یہ خوراک، صحت، معیشت اور مستقبل کا مسئلہ ہے۔ ہمیں اپنی روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی عادات میں تبدیلی لا کر ایک بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھنی ہو گی۔ یہ تبدیلی ایک ہی دن میں نہیں آئے گی لیکن اگر ہم سب مل کر قدم اٹھائیں تو یہ سفر آسان اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں