52

”موقع پرست ” سیاستدان نئی منزل کی طرف گامزن

اسلام آباد (بیوروچیف) بلوچستان میں سیاسی ہوائوں کا رخ ایک بار پھر سے بدل رہا ہے جس کا اندازہ حال ہی میں بلوچستان عوامی پارٹی نامی جماعت کے سرکردہ رہنمائوں کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ( ن) میں شمولیت سے ہوتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس پیش رفت کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ بظاہر عمومی رائے یہی ہے کہ اسٹیبلمشنٹ کی ہوائوں کا رخ بھی ن لیگ کے حق میں ہو چکا ہے۔پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کوئی نیا معاملہ نہیں جہاں مرکزی سیاسی جماعتیں بھی انتخابات میں کامیابی کے لیے مقامی الیکٹیبلز پر ہی انحصار کرتی ہیں۔ تاہم بلوچستان عوامی پارٹی(باپ)ایک ایسی جماعت تھی جس نے 2018 کے الیکشن سے قبل اچانک نمودار ہو کر صوبے میں ن لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور الیکشن کے بعد تحریک انصاف کی اتحادی بن گئی اور حکومت قائم کی۔تجزیہ کاروں کے مطابق بدلتی سیاسی صورتحال کے پیش نظر بظاہر ن لیگ بھی اب اس تلخ ماضی کو بھلانے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔ بلوچستان میں پارٹی سے بغاوت کرنے والے الیکٹیبلز کو دوبارہ پارٹی میں شامل کرنے کے اقدام کا ناصرف سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے دفاع کیا ہے بلکہ انھوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا ہے کہ ان کی شمولیت سے آئندہ عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں نواز لیگ کی حکومت بنے گی۔سنہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں نواز لیگ اور قوم پرست جماعتوں کی مخلوط حکومت بن گئی تھی۔ قوم پرست جماعتوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے مطابق پہلے ڈھائی سال نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلی بنے جبکہ دوسری مدت کے لیے نواز لیگ سے تعلق رکھنے والے نواب ثنا اللہ زہری وزیراعلی بنے۔تاہم نواز لیگ کے الیکٹیبلز کی بغاوت کی وجہ سے ثنا اللہ زہری اپنی مدت پوری نہیں کر سکے۔ نواب ثنا اللہ زہری اور راحیلہ درانی کے سوا پارٹی کے تمام اراکین اسمبلی بلوچستان عوامی پارٹی کا حصہ بن گئے۔ تجزیہ کار کے مطابق بلوچستان میں یہ ایک نیا سیاسی تجربہ تھا۔بلوچستان عوامی پارٹی کو بنانے میں سابق وزیر اعلی میر عبدالقدوس بزنجو، موجودہ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سمیت بعض دیگر لوگ شامل تھے۔ایک نئی جماعت تو بن گئی لیکن آغاز سے ہی اسے اندرونی اختلافات اور اقتدار کی جنگ کا سامنا رہا جس میں پہلے پارٹی رہنما جام کمال خان کو وزرات اعلی سے استعفی دینا پڑا جس کے بعد عبدالقدوس بزنجو وزارت اعلی کے منصب پر فائز ہوئے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام کا یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ قومی دھارے کی جماعتیں بلوچستان کو اہمیت نہیں دیتیں اور صوبے کے فیصلے اسلام آباد میں ہوتے ہیں جبکہ اس پارٹی کے قیام کے بعد بلوچستان کے فیصلے بلوچستان میں ہی ہوں گے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کا تجربہ بظاہر ناکام رہا کیونکہ اس سے تعلق رکھنے والے واپس ان جماعتوں کا رخ کر رہے ہیں جن کے بارے میں وہ کہتے رہے کہ وہ بلوچستان کو اہمیت نہیں دیتے۔تاہم باپ میں اب بھی الیکٹیبلز موجود ہیں اور اس جماعت کو ایک پریشر گروپ کے طور پر برقرار رکھا جائے گا۔سابق وزیر اعلی جام کمال کے استعفی کے بعد میر عبدالقدوس بزنجو وزیراعلی بنے تو یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ بی اے پی پیپلزپارٹی میں ضم ہو سکتی ہے۔ ان اطلاعات کو اس وقت دوام ملا جب سابق وزیراعلی میر عبدالقدوس بزنجو نے ایک بیان دیا کہ انھوں نے سابق صدر آصف علی زرداری سے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا وعدہ کیا ہے۔تاہم انھوں نے کہاکہ بی اے پی ختم نہیں ہو گی بلکہ اسے برقرار رکھا جائے گا۔اس کے بعد رواں سال 28 مئی اور بعد میں 5 جولائی کو پارٹی کے سابق صدر کی حیثیت سے قدوس بزنجو نے بھی کہا کہ انھوں نے سابق صدر آصف علی زرداری سے پیپلزپارٹی میں شمولیت کا وعدہ ضرور کیا تھا لیکن بعد میں چند دوستوں نے مشورہ دیا کہ میں بی اے پی میں رہ کر بلوچستان کے عوام کی خدمت کر سکتا ہوں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے اس پارٹی کو بنایا وہ ان الیکٹیبلز کو ضائع نہیں کرنا چاہتے۔نواز شریف کے دورہ کوئٹہ سے قبل پارٹی رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کوئٹہ میں جن الیکٹیبلز سے ملاقات کی ہے ان میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان اور سابق وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران بھی شامل تھے۔سردارعبدالرحمان نے اس بات کی تصدیق کی اور کہا کہ بہت سارے ساتھیوں نے ایاز صادق سے ملاقات کی اور یہ سب ایک ٹیم کی صورت میں ہوا۔ان کا کہنا ہے کہ ہم بنیادی طورپر مسلم لیگی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان اور ہمارے علاقے ترقی کریں۔ محمد نواز شریف نے ماضی میں بلوچستان کو جو ترقی دی، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ سردار ایاز صادق نے بلوچستان میں پارٹی کے صدر کی جانب سے دیے جانے والے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح دوستوں نے حوصلہ دیا اور ہاتھ تھاما، میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بلوچستان میں بھی نواز لیگ کی حکومت بنے گی۔ مجھے بہت یقین ہے اس چیز پر۔واضح رہے کہ حال ہی میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے ایم کیو ایم کے ساتھ کراچی اور سندھ میں انتخابی اتحاد کا اعلان کیا ہے۔اس تقریب میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سابق اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد موجود تھی۔بلوچستان میں ہونے والی یہ پیش رفت اس لحاظ سے بھی دلچسپ ہے کیوں کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک مقامی الیکٹیبلز کی جانب سے پیپلز پارٹی سے رابطے عروج پر تھے۔ پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ ہوائوں کا رخ بالکل الٹی سمت میں چلنا شروع ہو گیا؟تجزیہ کار وںکا ماننا ہے کہ پہلے کے مقابلے میں اب صورتحال نواز لیگ کے حق میں تبدیل ہو چکی ہے۔ایک سال پہلے آپ نے دیکھا کہ یہاں کے بڑے الیکٹیبلز کی لائنیں بلاول ہائوس کے سامنے لگی ہوئی تھیں۔ لیکن جب سے نگران حکومت بنی ہے تو ہوائوں کا رخ ن لیگ کی جانب ہے۔وہ کہتے ہیں کہ وفاداریاں تبدیل کرنے والے جانتے ہیں کہ کہاں جانا ہے۔ جس طرف ہوا چلتی ہے یا جس طرف کا سگنل ملتا ہے تو وہاں جاتے ہیں۔ اس لیے یہ لوگ پیپلز پارٹی کی بجائے ن لیگ کی جانب جا رہے ہیں۔تحریک انصاف کی پنجاب میں کافی حمایت ہے جہاں پیپلز پارٹی کا زیادہ اثر و رسوخ نہیں رہا اور ایسے میں چونکہ اصل لڑائی پنجاب میں ہے جہاں تحریک انصاف کا مقابلہ ن لیگ ہی کر سکتی ہے، اس لیے ہوائیں بھی اس کے حق میں بدل گئی ہیں جس کے نتیجے میں الیکٹیبلز اس کی طرف جا رہے ہیں۔چونکہ تحریک انصاف زیر عتاب ہے اور اس کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں، اس لیے الیکٹیبلز یہ دیکھ رہے ہیں کہ مجموعی طور پر پلیئنگ فیلڈ نواز لیگ کے حق میں ہے اور ان میں سے زیادہ تر کی کوشش یہی ہے کہ وہ نواز لیگ میں جگہ بنا لیں۔ سیاست میں اخلاقیات کا عمل دخل کم ہوتا ہے۔ زیادہ تر سیاسی جماعتیں یہ نہیں دیکھتی ہیں کہ کس کا ماضی کیا ہے، بلکہ ان کے رہنما 99 فیصد صرف یہ دیکھتے ہیں کہ میرا امیدوار جیت جائے، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ جو الیکٹیبلز آ رہے ہیں ان کو لے لو۔ تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ اس پیش رفت کے بعد بلوچستان میں نواز لیگ کی پوزیشن یقینا مضبوط ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں