36

مہنگائی کا طوفان ‘ مزید 2کروڑ بیروزگار

اسلام آباد (بیوروچیف)پاکستان میں ان دنوں دو قطاریں توجہ حاصل کر رہی ہیں۔ ایک طرف صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں گذشتہ ہفتے کھلنے والی کینیڈین کافی شاپ ٹِم ہارٹنز کے باہر لگی لائن جس میں لوگ بڑے حوصلے سے پیسے تھامے اپنی باری کے منتظر ہیں۔اس کے بارے میں سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہاں سے خریداری ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے یا پھر اس کو شاید ان کے نام سے بھی آگاہی نہیں ہو گی۔دوسری طرف وہ قطاریں جہاں مایوس چہروں کے ساتھ لوگ آٹا اور بنیادی راشن کا سامان لینے کے لیے سستے راشن ڈپو اور سٹورز کے باہر کھڑے ہیں۔ یہ قطاریں کئی کئی جگہ پر دیکھی جا سکتی ہیں اور مقامی ذرائع ابلاغ میں کئی روز سے ان کی تصاویر سامنے آ رہی ہیں۔پہلی قسم کی قطار کو دیکھ کر خاص طور پر سوشل میڈیا پر بحث کرنے والے چند صارفین کا خیال ہے کہ دیکھیں، کون کہتا ہے کہ پاکستان کے لوگ غریب ہیں یا ان کے پاس پیسہ نہیں ہے۔بعض لوگوں کے خیال میں یہ دونوں تصاویر پاکستان میں معاشی اعتبار سے دو انتہائی طبقوں یعنی انتہائی امیر اور انتہائی غریب کی نمائندگی کر رہی ہیں۔تو سوال یہ ہے کہ ان کے درمیان کا طبقہ یعنی مڈل کلاس کیوں دکھائی نہیں دے رہا۔معاشی ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کی مڈل کلاس یا درمیانی طبقے کو معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی قوتِ خرید کی وجہ سے پیسہ گردش میں رہتا ہے۔ یہ لوگ صنعت کے پہیے کو بھی چلاتے ہیں۔اگر مڈل کلاس کا حجم بڑا ہو گا تو یہ ظاہر کرے گا کہ خطِ غربت سے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد کم ہو رہی ہے یعنی وہ لوگ مڈل کلاس میں داخل ہو رہے ہیں۔پاکستان میں راشن کی دکانوں کے باہر حالیہ مناظر کو دیکھنے والے بعض افراد یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان میں مڈل کلاس سکڑ رہی ہے یعنی ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ماہرینِ اقتصادیات کے خیال میں ایسا سوچنا غلط نہیں ہو گا خاص طور پر اس وقت جب پاکستان میں مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے اور زر مبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں۔پاکستان کے نمایاں ماہر اقتصادیات اور سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بتایا کہ اس بات کا خدشہ ہے کہ آئندہ کچھ ہی عرصہ میں لگ بھگ دو کروڑ کے قریب لوگ پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ان کے خیال میں یہ وہ لوگ ہیں جن کی ماہانہ آمدن 30 سے 40 ہزار روپے کے درمیان ہے۔ماہرِ اقتصادیات اور سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ اسلام آباد یعنی ایس ڈی پی آئی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ بین الاقوامی طور پر ورلڈ بینک کے مطابق مڈل کلاس میں اس شخص کو سمجھا جاتا ہے جو ایک دن کے دس ڈالر کماتا ہے یعنی ایک مہینے کے تین سو ڈالر اس کی آمدن ہے۔ جو کہ موجودہ ایکسچینج ریٹ کے مطابق لگ بھگ 80 ہزار پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ گذشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں مڈل کلاس بڑھتی آ رہی تھی تاہم یہ سلسلہ سنہ 2018 میں تھم گیا۔ اس میں کمی کا رجحان جو 2018 کے بعد شروع ہوا وہ اگلے ہی سال اس حد تک پہنچ گیا کہ یہ مڈل کلاس لگ بھگ آدھی رہ گئی۔ ان کے خیال میں یہ رجحان ابھی بھی جاری ہے۔ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر حیفظ پاشا کہتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں حالیہ سیلابوں نے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچایا لیکن ساتھ ہی پاکستان میں ذرِمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے ہوئے تین ارب ڈالر سے بھی کم رہ چکے ہیں جبکہ صنعت اور برآمدات کا پہیہ رک چکا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے حالات پر قابو پانے کے لیے درآمدات پر پابندیاں لگائیں اس کی وجہ سے ملک میں صنعت کاری رک گئی اور دوسری طرف زر مبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں معاشی نمو (اقتصادی ترقی) کی شرح انتہائی کم رہی ہے اور مزید کم ہو گی۔وہ سمجھتے ہیں کہ اس سال کے آخر تک پاکستان میں شرح نمو منفی میں جانے کا خدشہ ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق پاکستان کے پاس اس وقت معاشی طور پر زیادہ گنجائش نہیں کہ وہ ان زرِمبادلہ کے ذخائر کو جلدی بڑھا سکے۔ایس ڈی پی آئی کے ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر ساجد امین کے خیال میں سنہ 2018 کے بعد پاکستان میں مڈل کلاس کے مسلسل سکڑنے کی بنیادی طور پر تین وجوہات ہیں۔ان کے خیال میں سنہ 2019 اور اس کے بعد حکومت نے مالی پالیسی کو سخت کیا۔ یہ ایسی پالیسی ہوتی ہے جس میں حکومتیں اپنے خرچ کو کم کرتی ہیں اور ٹیکس بڑھا دیتی ہیں۔ یوں کاروباروں اور صارفین کے لیے خرچ کرنے کے لیے پیسے کم بچتے ہیں اور ایسے میں لوگوں کی قوت خرید مسلسل کم ہوتی رہتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ شرح نمو کم ہونے سے بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو گا اور معیشت کی نشو و نما مزید کم ہو گی۔ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ پاکستان میں سنہ 2018 تک ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر ایک خاص حد تک رکھا گیا لیکن 2019 کے بعد روپے کی قدر نے ڈالر کے مقابلے گرنا شروع کیا اور اب تو بہت زیادہ گرت چکا ہے۔’اس طرح جو شخص پہلے 105 روپے کما رہا تھا وہ ایک ڈالر کما رہا تھا۔ ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے وہ بے شک 105 روپے ہی کما رہا ہے لیکن وہ ایک ڈالر سے بہت کم ہے۔ اس لیے وہ ورلڈ بینک کی مڈل کلاس کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ ساتھ ہی پاکستان میں مہنگائی اس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی مڈل کلاس کے سکڑنے کی ایک وجہ ہے۔ڈاکڑ حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ مڈل کلاس کے سکڑنے کی وجہ سے شرح نمو مزید سست ہو گی کیونکہ معیشت کے پہیے کو چلانے کے لیے جو مانگ پیدا ہوتی ہے وہ مڈل کلاس ہی سے پیدا ہو تی ہے۔اگلے کچھ برسوں میں پاکستان کی شرحِ نمو منفی میں رہنے کا رجحان ہے جو کہ بہت خطرناک بات ہے اور یہ اس لیے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح 25 فیصد سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی معیشت میں ہر قسم کی مانگ یعنی ڈیمانڈ اور سپلائی دونوں طرف کی مانگ مڈل کلاس ہی سے آتی ہے۔اگر مڈل کلاس سکڑے گی تو یہ ڈیمانڈ بھی کم ہو جائے گی یعنی خرچ کرنے والے کم ہوں گے تو کاروبار کے مواقع بھی کم ہوں گے، روزگار کے مواقع کم ہوں گیاور نتیجتا خرچ کرنے کے لیے پیسہ کم بنے گا۔ علاوہ ازیں حکومت نے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کردی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی گئی۔ گھریلو، کمرشل اور پاور سیکٹرز کیلئے 6ماہ (جنوری تا جون 2023 )کے لیے گیس کی قیمتوں میں نظر ثانی کرتے ہوئے اضافے کی منظوری دی گئی۔حکومت نے ایک بار پھر بجلی کے نرخ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے ای سی سی نے فی یونٹ 3.82 روپے لیوی عائد کرنے کی منظوری دے دی۔ بجلی صارفین کے لیے ایک اور بری خبر سامنے آئی ہے، حکومت نے فی یونٹ بجلی استعمال کرنے پر پاور ہولڈنگ لیوی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر ای سی سی نے فی یونٹ 3.82 روپے لیوی عائد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ذرائع پاور ڈویژن کے مطابق بجلی کی قیمت پر لیوی مرحلہ وار عائد کیا جائے گا اور نیپرا سے منظوری لی جائے گی، بجلی صارفین کے لیے فی یونٹ 31.74 روپے ہو جائے گا’ذرائع کے مطابق فروری مارچ کے لیے پاور ہولڈنگ لیوی 43 پیسے عائد کرنے کی منظوری دی گئی ہے جب کہ مارچ سے جون تک 3.39 روپے اضافی لیوی شامل کیا جائے گا، جولائی سے اکتوبر تک 43 پیسے کے ساتھ مزید ایک روپے لیوی عائد کیا جائے گا اور 3.39 روپے لیوی ختم ہوجائے گا۔ اسی طرح نومبر 2023 سے جون 2024 تک 1.43 روپے لیوی عائد رہے گا۔ذرائع کے مطابق پاور ہولڈنگ لیوی کا اطلاق 300 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین پر نہیں ہوگا، لائف لائن صارفین اور کے الیکٹرک کے بجلی صارفین بھی پاورہولڈنگ لیوی سے مستثنی ہوں گے۔ دریں اثنا حکومت نے سیلاب متاثرین اور زرعی صارفین کے لیے 2.75 روپے کا فی یونٹ ریلیف ختم کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی)نے 6 ماہ کے لیے قدرتی گیس کی قیمتوں میں 16 فیصد سے 112.32 فیصد تک اضافہ کردیا، جس کا اطلاق یکم جنوری سے سمجھا جائے گا۔آئی ایم ایف سے 1.2 ارب ڈالر کی قسط کا حصول یقینی بنانے کے لیے اس اقدام کے ذریعے زیادہ تر گھریلو اور دیگر تمام کیٹیگریز کے صارفین سے 3 کھرب 10 ارب روپے اضافی وصول کیے جائیں گے۔اضافے سے پہلے رہائشی صارفین کے لیے کم از کم سلیب 50 یونٹ فی مہینہ (0.5 ایچ ایم 3)تھا جسے قیمت کے نئیطریقہ کار کے تحت کم کر کے 25 یونٹ کر دیا گیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ گھریلو صارفین کی بڑی تعداد سے زیادہ سے زیادہ ریونیو اکٹھا کرنے کے لیے قیمت کے نئے طریقہ کار کے تحت کم کھپت والے صارفین متاثر ہوں گے۔گیس کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ محفوظ صارفین سے 50 روپے ماہانہ اور غیر محفوظ صارفین سے 500 روپے ماہانہ کی مقررہ شرح وصول کی جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں