99

مہنگی بجلی’ گیس عوام کیلئے عذاب سے کم نہیں! (اداریہ)

ایک سال میں گیس کی قیمت میں چھ سو فی صد تک اضافہ ہو چکا ہے ایک مرتبہ پھر گیس کی قیمتوں میں اضافے کی تیاریاں ہو رہی ہیں سوئی ناردرن گیس کمپنی نے چار ہزار 489 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت کی تجویز دی ہے گیس کی قیمت بڑھنے سے بلوں میں اوسطاً ایک سو پچپن فی صد تک مزید اضافہ ہو گا، قبل ازیں بجلی کے نرخوں میں اضافہ تسلسل سے جاری ہے اب وقفہ وقفہ سے گیس کے نرخوں میں ہوش اڑانے والا اضافہ کیا جا رہا ہے، گیس آئے نہ یا آئے بھاری بل ضرور آتے ہیں موسم سرما میں گیس کی قلت کے باعث گھریلو اور کمرشل صارفین کیلئے اوقات مقرر کئے گئے تاکہ سب کو یکساں گیس مہیا کی جا سکے مگر محکمہ کی ناقص حکمت عملی کے باعث مقررہ کردہ اوقات میں بھی گیس کی قلت کا ہی رونا رہا نہ گھریلو صارفین مطمئن ہوئے اور نہ ہی کمرشل’ نتیجہ یہ نکلا کہ ایل پی جی گیس کی کھپت میں اضافہ ہوا اور گھریلو گیس سلنڈر اور کمرشل گیس سلنڈر کے نرخوں میں اتنا زیادہ اضافہ کر دیا گیا کہ عوام کی چیخیں نکل گئیں ایل پی جی پر چلنے والی انٹرسٹی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ سے شہری عاجز آ چکے ہیں مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی’ سرما اختتام کو پہنچنے والا ہے اور موسم گرما کی آمد آمد ہے اب بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اوگرا کو کبھی لائن لاسز اور کبھی فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں عوام پر بجلی گرانے کی درخواست کریں گی اور پھر عوام پر موسم گرما میں بجلی کے بھاری بلوں کے بجھوانے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا مختصراً یہ کہ عوام کو کسی پل چین سے نہیں رہنے دیا جائے گا، ایک طرف بجلی کے بل تو دوسری جانب گیس کے بل صارفین کو مریض بنا رہے ہیں بے چارے عوام کہاں جائیں ان پر تو مہنگائی’ بجلی اور گیس کے بھاری بل کسی عذاب سے کم نہیں اور ان کے دل ودماغ کو جلا رہے ہیں مگر حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں عام آدمی کے روزمرہ استعمال کی اشیاء اس کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں مگر حکمران تماشا دیکھ رہے ہیں گیس کی قیمتوں میں اضافہ پر وزیراعظم میاں شہباز شریف نے برہمی کا اظہار کیا ہے انہوں نے وزارت توانائی کو ایک سے تین ماہ میں 16ٹاسک مکمل کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں جبکہ ایک ماہ میں گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی فارنزک آڈٹ کی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی ہے، دراصل ہمارے ملک میں نوکرشاہی ہی سب کچھ ہیں حکمران تو آتے جاتے رہتے ہیں مگر بیوروکریسی وہیں رہتی ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے وزیراعظم کے برہم ہونے سے کیا ہو گا وزارت توانائی جو بھی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے گی اس میں صارفین کو ہی قصوروار ٹھہرایا جائے گا اور وزیراعظم بھی معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے صبر سے کام لیں گے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گذرے بیس پچیس برسوں میں مختلف حکومتوں نے اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے کچھ کام کیا یا نہیں ملک میں ہر وز مہنگائی کے نئے ریکارڈ قائم ہوتے ہیں لیکن حکمران اس معاملے میں بے بس دکھائی دیتے ہیں، آخر تمام انتظامی وسائل ہونے کے باوجود بجلی کے لائن لاسز’ فیول ایڈجسٹمنٹ اور گردشی قرضہ جیسے مسائل پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکا گیس کے ذخائر موجود ہونے کے باوجود ان سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا جا رہا زرعی ملک ہونے کے باوجود اجناس اور دیگر اشیاء ہم دیگر ملکوں سے منگوانے کیلئے کیوں مجبور ہیں ان سوالوں کا جواب حکمرانوں کو ڈھونڈنا ہو گا ورنہ عوام کو مہنگائی’ مہنگی بجلی’ مہنگی گیس’ مہنگی پٹرولیم مصنوعات سے نجات دلانا ناممکن ہو جائے گا اگر عوام میں بے چینی بڑھتی گئی تو حکمران بھی چین سے نہیں بیٹھ سکیںگے ضرورت اس امر کی ہے کہ معاملات کو سنجیدگی سے حل کیا جائے تاکہ عوام مطمئن ہوں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں