44

”نظریہ ضرورت ”سیاسی جماعتوں میں 1956 ء سے تقسیم کا سلسلہ جاری

اسلام آباد(بیوروچیف)انتخابات سے قبل نظریہ ضرورت کے تحت مضبوط سیاسی جماعتوں میں تقسیم کا سلسلہ 1956سے جاری ہے،سیاسی جماعتوں کے اتحاد بننے کے ساتھ نئی جماعتوں کے قیام کی روایات نئی نہیں، سابق صدر اسکندر مرزا نے ریبپلکن پارٹی بنا کر ابتدا کی، استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین دونوں حلقوں سے شکست کھا گئے، ان کے نامزد کردہ عون چوہدری نے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ آئی پی پی اور ٹی ٹی آئی پی دونوں نوزائیدی سیاسی جماعتیں جلد ہی اپنی پہچان کھو کر قصہ پارینہ بن جائیں گی۔انتخابات سے قبل سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے اور کرانے، نئی سیاسی جماعتیں سامنے لانے اور اپنی جماعتوں سے پرواز کرنے والوں کا بالعموم اختتام ایسا ہی ہوتا ہے۔ پاکستان میں انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کے نئے اتحاد بننے کے ساتھ ساتھ نئی جماعتوں کے قیام کی تاریخ اور روایات نئی نہیں ہیں۔ اقتدار حاصل کرنے کیلئے یہ عمل قیام پاکستان کے کچھ عرصے کے بعد ہی اس وقت شروع ہوگیا تھا جب ملک کے پہلے صدر اسکندر مرزا کو ایک سیاسی پارٹی کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے 1956 میں ریپبلکن پارٹی کی بنیاد رکھی جسے پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔بعد میں 1962 میں ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ تشکیل دی لیکن ان کے اقتدار کے خاتمہ کے ساتھ پارٹی بھی ختم ہوگئی لیکن یہ سلسلہ جاری رہا اور جنرل ضیا الحق نے مسلم لیگ کا شیرازہ بکھرنے کے بعد اسے مسلم لیگ (ق) میں سمیٹنے کی کوشش کی۔پیپلز پارٹی میں سے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ برآمد کی گئی۔ جنرل پرویز مشرف کے ایسے ہی عزائم کی تکمیل کیلئے سیاستدانوں نے اپنی خدمات پیش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن ایسے مواقعوں پر منظرعام پر آنے والی نوزائیدہ جماعتوں کے قیام اور منقسم ہوکر بننے والی جماعتوں کا انجام بھی ایسا ہی ہوا جیسا کہ استحکام پاکستان پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین کا ہوا۔ تاہم پاکستان پیپلز پارٹی1967 اور پاکستان مسلم لیگ(ن)1993 سے سیاسی نشیب و فراز سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے سیاسی وجود کو جمہوری اور عوامی انداز میں قائم رکھے ہوئے ہیں۔ حالیہ انتخابات سے چند ماہ قبل معرض وجود میں آنے والی دو جماعتیں اور ان کے قائدین کس صورتحال سے دوچار ہیں اس کا اندازہ اس جائزہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی اور اس کے سربراہ جہانگیر ترین جو قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں وہ اپنے وسائل کے حوالے سے جنوبی پنجاب کی ایک معروف شخصیت ہیں ان کا قابل ذکر سیاسی تذکرہ بنی گالہ کے حوالے سے اس وقت سامنے آیا جب وہ آزاد اور سیاسی وابستگیوں کی ترغیب پر آمادہ ارکان کو اپنے ذاتی جہاز میں بنی گالہ لاکر اپنے قائد کے ہاتھوں سے ان کے گلے میں پی ٹی آئی کے سکارف پہنواتے اور تصاویر بنواتے تھے، پھر انہیں عمران خان کا اے ٹی ایم (A.T.M) بھی قرار دیا گیا اور صرف مخالفین ہی نہیں بلکہ ان کی جماعت کے لوگ بھی اسی حوالے سے ان کا تذکرہ کرتے تھے۔ 9 مئی کے واقعہ کے بعد انہوں نے بھی پی ٹی آئی سے لاتعلقی اختیار کرکے استحکام پارٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا جس میں مبینہ طور پر جبری شمولیت بھی کی گئی۔ ان کے سابقہ پس منظر کے حوالے سے یہی کہا جارہا تھا کہ وہ یہی کردار ہم خیال جماعت کی حیثیت سے بھی ادا کریں گے اور الیکشن سے قبل انہوں نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں