60

نواز شریف ایک بار پھر ملکی سیاست میں سرگرم (اداریہ)

پاکستانی سیاست میں کسی بھی وقت حیران کن تبدیلی رونما ہو سکتی ہے کسی کو نہیں پتہ کہ کل جن سیاستدانوں پر سیاست کے در بند تھے وہ کس وقت پھر سے وا ہو جائیں گے ملک میں بڑے بڑے تجربہ کار سیاستدان مختلف قسم کے مسائل میں گھرے رہے پھر وقت بدلا اور وہ پھر سے سیاست میں ان ہو گئے ایسا ایک عرصہ سے ہوتا چلا آ رہا ہے ملکی سیاست کے بدلتے رنگ مختلف زمانوں میں نئی داستانیں رقم کرتے چلے آ رہے ہیں ایک وقت تھا جب نواز شریف کے گرد گھیرا اتنا تنگ ہو گیا کہ ان کو وطن چھوڑنے کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی چھوڑنی پڑی ایک طویل عرصہ سیاست سے آئوٹ رہے بالآخر سال 2024ء میں انکی پاکستان آمد ہوئی اور ان پر قائم کیسز پر دوبارہ سماعتیں ہوئیں اور ایک ایک کر کے کیس ختم ہوتے گئے یہاں تک وزیراعظم شہباز شریف جو مسلم لیگ (ن) کے صدر بنے انہوں نے بھی صدارت سے استعفیٰ دیدیا اور پارٹی قیادت نے میاں نواز شریف کو قائمقام پارٹی صدر نامزد کر دیا 28مئی کو ایک اہم اجلاس میں ان کو پارٹی صدر بنانے کا فیصلہ کیا گیا مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر کی قیادت سنبھالنے کے بعد نواز شریف ایک بار پھر ملکی سیاسی منظرنامے پر پوری طاقت سے نمودار ہوں گے گزشتہ روز مسلم لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں نواز شریف کا خطاب کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل تھا اس میں انہوں نے نہ صرف اپنے سیاسی عزائم کا کھل کر اظہار کیا بلکہ حسب سابق ماضی کی تلخیوں کا ذکر کرنا بھی نہیں بھولے، انہوں نے عدلیہ کے بعض جج صاحبان کا نام لیکر ان پر تنقید کی بعض اداروں کو دھیمے لہجے میں تنقید کا نشانہ بنایا عوام کے ساتھ بھی شکوہ کر ڈالا کہ وہ ”ووٹ کو عزت دو” کے بیانیئے پر ان کے ساتھ نہیں نکلے ان کی تقریر کا مجموعی تاثر یہ تھا کہ وہ سیاست سے ریٹائر ہونے کے بجائے ایک بھرپور سیاسی اننگز کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں، نواز شریف کا یہ فیصلہ اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ وہ ایک تجربہ کار اور سردوگرم چشیدہ سیاستدان ہیں اور گزشتہ چار دہائیوں سے ملکی سیاست کے افق پر موجود رہے ہیں، سیاسی منظرنامے پر ان کی موجودگی سیاسی صورتحال کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کریگی، تاہم اس وقت نواز شریف کا مقابلہ ایک ایسی سیاسی شخصیت سے ہے جس نے یوتھ کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے اور وہ کسی بھی لحاظ سے مفاہمت کی سیاست کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، نواز شریف بھی بظاہر محاذ آرائی کی سیاست کی طرف جاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں یہ چیز نہ صرف مسلم لیگ کے لیے بلکہ پاکستانی سیاست کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے نواز شریف جب مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے نئی سیاسی اننگز کھیلنے جا رہے ہیں تو ان کے پیش نظر یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ اب حالات بدل چکے ہیں زمینی حقیقت تبدیل ہو چکی ہیں عوام کا رُخ نواز سے خان کی طرف ہو چکا ہے نواز شریف اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، ملکی معاشی حالات جس نہج میں ہیں وہ کسی بھی نوعیت کی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے جبکہ عمران اور نواز شریف کا بے لچک رویہ ملک کو ایک بند گلی کی طرف سے لیکر جا رہا ہے اس صورتحال میں میاں نواز شریف پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ایک طرف تو وہ حکمران جماعت کے سربراہ ہیں اور دوسری طرف پنجاب اور مرکز میں قائم حکومتوں کے حقیقی راہبر بھی ہیں اب انہیں سیاستدان کے بجائے ایک راہنما کے طور پر سوچنا ہو گا ماضی کی تلخیاں بھلا کر بہتر مستقبل کیلئے اپنے بدترین مخالفین کی طرف بھی توجہ کرنا ہو گی نواز شریف کو سیاست بچانے کے بجائے پاکستان بچانے کی بات کرنا ہو گی یہی بات ان کے مرتبے میں بلندی کا باعث بن سکتی ہے لیکن اگر وہ ملک کو 90کی دہائی میں لیکر چلے گئے تو یہ بڑی بدقسمتی ہو گی اور نوجوان نسل اس سنگین غفلت کو معاف نہیں کرے گی،،سیاستدانوں کی زندگی میں بڑے بڑے سیاسی وعدالتی رکاوٹیں آتی ہیں جن کی وجہ سے ان کی نیندیں اڑ جاتی ہیں مگر سیاستدانوں کو ایسے حالات میں تحمل وبرداشت کا مظاہرہ کر کے ہی سیاست بچائی جا سکتی ہے نواز شریف قسمت کے دھنی ہیں اور تین مرتبہ وزارت عظمیٰ پر فائز رہ چکے ہیں موٹروے’ ملک کو ایٹمی قوت بنانے’ اقتصادی راہداری منصوبہ اور ملک میں لڑاکا طیارے بنانے کی انڈسٹری قائم کرنے سمیت متعدد فلاحی منصوبوں کا کریڈٹ ان کو جاتا ہے، اب وہ ایک بار پھر PMLN کی قیادت سنبھالنے جا رہے ہیں جس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ وہ ایک بار پھر سیاسی منظرنامے پر پوری قوت سے جگمگانا چاہتے ہیں، اس مرتبہ دیکھیں ان کی قسمت اُن کا ساتھ دیتی ہے یا نہیں اس کیلئے انتظار کرنا ہو گا۔ اﷲ کرے وہ سیاسی منظرنامے میں امیدوں کے چراغ جلاتے نظر آئیں، مثبت سیاست کو فروغ دیں، ماضی کی تلخیاں بھلا کر ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی حیثیت سے ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں