70

نیب قوانین کی بحالی سیاسی خدشات اوربے یقینی بڑھ گئی

اسلام آباد (بیوروچیف) سپریم کورٹ کی جانب سے نیب قوانین میں کی گئی ترامیم کیخلاف فیصلے کے بعد تجزیہ کاروں نے کہاہے کہ نیب قوانین کی بحالی کے بعدغیر سیاسی قوتیں مزید مضبوط ہوجائیں گی،اب آصف زرداری، نواز شریف ، عمران خان کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جائے گا،سیاسی جماعتوں کو بنانے میں اور توڑنے میں نیب کا کردار رہا ہے.تحریک انصاف کے جو مقدما ت ہیں خاص طور پر عمران خان کے خلاف اس میں نیب زیادہ متحرک نظر آئے گا، پی ٹی آئی والو ں نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری ہے ان کو کافی نقصان ہوگا۔ عمر عطا بندیال کا یہ فیصلہ متوقع تھاان کے ہم خیال کچھ لوگ قیاس آرائی کررہے تھے۔یہ متوقع فیصلہ تھا تین رکنی بینچ ہے اس بینچ میں جو دو ججز ہیں ان کا جو سیاسی رجحان ہے وہ سب کو پتہ ہے۔ ایک عمر عطا بندیال اور دوسرے جسٹس فیاض الاحسن ہیں جو تیسرے جج ہیں منصور علی شاہ انہوں نے اختلافی نوٹ دیا ہے۔یہ ایک بہت ہی متنازع ایشو تھااس پردو انتہائی متنازع ججوں کا فیصلہ ہے۔ یہ کیوں کہ دو ایک سے فیصلہ آیا ہے اس پر اگر کوئی نظر ثانی میں جانے کی کوشش کرے گاتو اپیل قابل سماعت ہوجائے گی۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نیب ترامیم کالعدم فیصلے کا اثر القادر ٹرسٹ کیس پر بھی پڑے گا ‘ سپریم کورٹ کے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلہ سے جہاں دیگر سیاستدانوں کیلئے مشکلات پیدا ہوں گی وہیں نیب ترامیم کو چیلنج کرنیوالے درخواست گزار چیئرمین پی ٹی آئی خود اس فیصلے کی زد میں آسکتے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف نے جس وقت نئی نیب ترامیم کو چیلنج کیا اس وقت حالات کچھ اور تھے، بعد میں جب نیب میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر القادر ٹرسٹ کی انوسٹی گیشن کا آغاز ہوا تو چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے دفاع میں موقف اپنایا کہ القادر ٹرسٹ کا فیصلہ کابینہ کا تھا اور نئی نیب ترامیم کے تحت کابینہ کے فیصلوں کو تحفظ حاصل ہے۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے فیصلے کو جو ان کے کیریئر کا آخری فیصلہ تھا،آخری گیند پر سکسر سے تعبیر کیا جارہا ہے جبکہ دوسری جانب یہ دعوی بھی کیا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں منصف اعلی کے منصب پر فائز ہونے والی شخصیت اس سارے عمل کو قانونی طریقے سے ہی غیر موثر کرسکتی ہے۔ بہرحال فی الوقت تو عمر عطا بندیال کے فیصلے نے پاکستانی سیاست کے دھندلائے ہوئے منظر کی غیر یقینی میں امکانات اور خدشات کا مزید اضافہ کردیا ہے اور اب اس حوالے سے جو سوالات اٹھ رہے ہیں کہ چھ سابق وزرائے اعظم اور ایک سابق صدر کے نیب کیسیز بحال کرنے کے فیصلے پر عملدرآمد سے ملکی سیاست کا منظر کیا ہوگا؟۔ یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا نگران وزیراعظم جو خود بھی اس فیصلے سے متاثر ہوئے ہیں اپنی منصبی ذمہ داریوں کو جاری رکھیں گے یا اعلی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے قبل از وقت اپنے منصب کو خیرباد کہہ دیں گے اور کیا وہ اپنے منصب پر مبینہ الزام کی شکنوں کے ساتھ یو این جنرل اسمبلی کی بحث میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے؟ گوکہ نگران وزیراعظم کو اس حوالے سے کلین چٹ دی جارہی ہے یا(دی جاچکی ہے)اور نیب کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ نگران وزیراعظم پر الزامات کا معاملہ ان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی کلیئر ہوگیا تھا اور ان کے خلاف تحقیقات کے بعد میرٹ پر یہ فیصلہ ہوا تھا ہوسکتا ہے کہ یہ بات قطعی طور پر درست ہو لیکن اس طرح کی توجیحات مثال بن کر دوسرے متاثرین کے تقاضوں پر مطالبات کی شکل میں سامنے آئیں گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں