37

وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہر ہونے پر کارکن مایوس

لاہور(بیوروچیف)عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) نے دعویٰ کیا تھا کہ وزارت عظمیٰ کے لیے پارٹی کا انتخاب نواز شریف ہوں گے جس کی تصدیق پارٹی کی جانب سے ایک بھرپور میڈیا مہم کے ذریعے بھی کی گئی تاہم مسلم لیگ (ن) سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی توتین بار وزیراعظم بننے والے نواز شریف کے بجائے شہباز شریف کے وزیراعظم کے امیدوار بننے کی راہ ہموار ہوئی۔اب جبکہ نواز شریف بظاہر سائیڈ لائن ہو چکے ہیں، اس لیے پارٹی کے عام اراکین کو یہ حقیقت قبول کرنا مشکل ہو رہا ہے ،سوشل میڈیا پر”پاکستان کو نواز دو”کے ہیش ٹیگ کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کی جانب سے91ہزار سے زائد ٹوئٹس کی گئیں۔سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے متعدد ٹوئٹس میں یہ سوالات پوچھے جا رہے تھے کہ پاکستان کو نواز دو کے انتخابی نعرے کا کیا ہوا اور کیا نواز شریف کا سیاسی کیریئر ختم ہو گیا؟اسی طرح نواز شریف کے پولیٹیکل سیکریٹری سینیٹر آصف کرمانی نے بھی ممکنہ مخلوط حکومت کی قیادت کے لیے شہباز شریف کی بطور وزیراعظم نامزدگی پر تشویش کا اظہار کیا۔پارٹی کی سینیئر نائب صدر اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی امیدوار مریم نواز نے وزیراعظم کے عہدے کی دوڑ سے اپنے والد کے دستبردار ہونے کے فیصلے کا دفاع کیا اور اس فیصلے کو 8 فروری کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی سے جوڑا۔شریف خاندان کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہر ہونے کا فیصلہ اپنی بیٹی مریم نواز کے لیے کیا ہے ، جو پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بنیں گی۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف مخلوط حکومت میں وزیراعظم کا عہدہ سنبھال سکتے تھے لیکن پھر مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب نہ بن پاتیں، اپنی بیٹی کی محبت کی خاطر نواز شریف نے چوتھی بار وزیراعظم بننے کی خواہش قربان کردی۔پارٹی ذرائع نے بتایا کہ اگر شہباز شریف کے بجائے نواز شریف ڈرائیونگ سیٹ پر ہوتے تو شہباز شریف کو پنجاب کی قیادت سنبھالنے کے لیے کہا جانا چاہیے تھا جو صوبائی ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اپنے وسیع تجربے کی بدولت صوبے میں پارٹی کا کھویا ہوا مقام واپس دلواسکتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ اس نا موافِق ماحول میں ناتجربہ کار مریم نواز کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب تعیناتی کا فیصلہ اچھا اقدام نہیں ہے بلکہ یہ ایک تباہ کن فیصلہ ثابت ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں