113

پارلیمانی سیاست کے در وازے بند

اسلام آباد(بیوروچیف)سپریم کورٹ کی جانب سے ریویو آف آرڈرز اینڈ جج منٹس ایکٹ کو کالعدم قرار دیے جانے کے فیصلے پر ماہرین کے متضاد آرا سامنے آئے ہیں، بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور عمران خان پارلیمانی سیاست سے آوٹ ہوگئے، تاہم بعض کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہوا، ایڈووکیٹ احمد پنسوتا کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی نا اہلی کو اب چیلنج نہیں کیا جا سکتا، بیرسٹر علی ظفر کا کہناہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے نا اہلی کے پرانے فیصلے دوبارہ کھولنے کی کوشش ناکام ہوگئی ہے، اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پارلیمانی اختیارات میں مداخلت اچھی روایت نہیں، سینیٹر عرفان صدیقی ریویو ایکٹ کا فیصلہ سنانے کیلئے اس لیے 53 دن انتظار کیا کہ قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے۔ تفصیلات کے مطابق نون لیگی رہنما اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ پارلیمان کے اختیارات میں بار بار مداخلت اچھی روایت نہیں، یہ اداروں کو مضبوط نہیں کمزور کرتی ہے،سابق وفاقی وزیر اور ن لیگی رہنما اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین نے نظام کو چلانے کیلئے ایک طریقہ وضع کیا ہے، عدالت کا کام کیسز کا فیصلہ کرنا ہے، لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہے، آئین کہتا ہے کہ آپ اپنی مرضی کا وکیل رکھ سکتے ہیں،انہوں نے کہا کہ کل پارلیمان تحلیل ہوا اور اس کے بعدیہ فیصلہ جاری کیا گیا، اس فیصلے پر ریویو کی آپشن بالکل ہے، 30دن کے اندر اندر ریویو فائل کرسکتے ہیں۔ماہر قانون بیرسٹر علی ظفر نے سپریم کورٹ کی جانب سے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کو کالعدم قرار دیے جانے کے فیصلے پر کہا ہے کہ اس سے نا اہلی کے پرانے فیصلے دوبارہ کھولنے کی کوشش ناکام ہوگئی ہے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ ایک اور تاریخی فیصلہ ہے جس کے ذریعے غیر آئینی قانون کو ختم کیا گیا ہے، ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد نا اہلی کے پرانے فیصلے دوبارہ کھولنے کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔ ان کا خیال تھا نواز شریف سمیت باقی نا اہل لوگوں کیخلاف اپیل کی گنجائش ہوگی لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نا اہل لوگوں کی جانب سے اپیل نہیں ہو سکتی۔ اگر یہ ایکٹ کالعدم قرار نہ دیا جاتا تو سزا یافتہ لوگ بھی نا اہلی کیخلاف اپیل دائر کرتے،انہوں نے کہا کہ یہ قانون پاس کرتے وقت بھی کہا تھا کہ یہ آئین کے خلاف ہے کیونکہ آئین میں ترامیم کرکے ہی اپیل کا حق دیا جا سکتا ہے اور آئین میں ترمیم صرف دو تہائی اکثریت سے ہی ممکن ہے لیکن سینیٹرز نے میری بات نہ سنی اور اس کو منظور کرا لیا گیا۔ جسٹس (ر)شائق عثمانی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے ، اگر اس پیل میں کوئی گنجائش پیدا کرنی ہے تو اس کے کیلئے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی ، کوئی قانون آئین سے بالا تر نہیں ، انہوں نے کوشش کی کہ کوئی آئین بنادیں تاکہ اس میں عملدرآمد کیا جاسکے ۔ سپریم کورٹ نے قانونی طور پر صحیح طور پر کالعدم قرار دیا ہے ، اگر پارٹیاں چاہتی ہے کہ اس قانون میں ترامیم کی جائیں تو آئندہ والی حکومت میں جو بھی پارٹی آئے آئینی ترامیم کرکے اس سے نافذ کرائے ، اس قسم کے قوانین کیلئے آئین میں ترامیم کی ضرورت ہے ۔ ماہر قانون احمد پنسوتا نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کو کالعدم قرار دیے جانے کے فیصلے کے بعد نواز شریف کی نا اہلی کو چیلنج کرنا ممکن نہیں رہا،ایڈووکیٹ احمد پنسوتا نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کا ریویو کے ذریعے اپیل کا اختیار دینا آئین سے تجاوز ہے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی یہی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف 30دن میں اپیل کا حق ہے اگر نگراں حکومت اس فیصلے کو چیلنج نہیں کرتی تو یہ دوبارہ نہیں سنا جائے گا،ان کا کہنا تھا کہ ریویو کے قوانین اور پریکٹس کے تحت سپریم کورٹ کا وہی بینچ اپیل بھی سنے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں