قومی اسمبلی میں تاریخی قانون سازی کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف’ یوسف رضا گیلانی’ جہانگیر ترین اور نسلہ ٹاور کو متاثرین کو اپیل کا حق مل گیا، قومی اسمبلی نے عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء بھاری اکثریت سے منظور کر لیا، بل کے تحت اپیل کیلئے 30 دن کا وقت دیا جائے گا اپیل کنندہ مرضی کا وکیل کر سکے گا قانون سازی سے ون مین شو کا اختتام ہو گیا عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء کے تحت سوموٹو کا اختیار سپریم کورٹ کے 3 ججز کو ہو گا وزیر قانون کا کہنا ہے کہ قانون سازی آئین پاکستان کے عین مطابق ہے اس قانون نے سپریم کورٹ میں نہ کمی کی نہ اضافہ کیا وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا پارلیمان اپنا حق استعمال کر رہا ہے وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور نے کہا قانون سازی ہمارا حق ہے کسی جنرل یا جج کا نہیں جو اپنی حدود پار کرے انکو روکنے کیلئے قانون سازی کا حق رکھتے ہیں” عدلیہ وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اُس وقت خود کٹہرے کی زینت بن گئی جب قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے یاد دلایا کہ ایک آڈیو میں سپریم کورٹ کے ایک جج کے بارے میں بعض انکشافات سامنے آئے ہیں سپریم کورٹ اس کا فرانزک آڈٹ کرائے یہ ویڈیو اگر جھوٹی ہے تو مرتکب افراد کو سزا دی جائے اگر درست ہے تو پھر قانون کے تحت کارروائی کی جائے ان کا کہنا تھا کہ جن کے خلاف باتیں سامنے آئیں بتایا جائے کہ کتنے ججوں کوکرپشن کے کیسوں پر نکالا گیا جبکہ سیاستدانوں کے خلاف آنکھیں بند کر کے آمدنی سے زیادہ اثاثوں کے کیس بنائے جاتے ہیں ایوان کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ ایسا کب تک چلے گا ہم آئین وقانون کی حکمرانی چاہتے ہیں 2 ججز کے اختلافی نوٹ کے بعد اگر پارلیمنٹ نے قانون سازی نہ کی تو قوم معاف نہیں کرے گی قومی اسمبلی میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور دیگر وزراء نے بھی قانون سازی پر زور دیا جس کے بعد قومی اسمبلی میں تاریخی قانون سازی کی گئی ہے جسے وقت کا تقاضا قرار دیا جا رہا ہے جبکہ صدر مملکت کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کا اختیار محدود کرنے کی قانون سازی کی ٹائمنگ سوالیہ نشان ہے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر سپریم کورٹ کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے بل پر دستخط کرنے کا اس وقت فیصلہ کروں گا جب یہ میرے پاس آئے گا دعا ہے کہ ججز آپس میں اشتراک پیدا کریں” ہماری سیاسی اور عدالتی تاریخ میں انتہائی افسوسناک صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ گزشتہ ایک سال سے ملک میں جاری سیاسی کشیدگی’ عدم استحکام اور ایک دوسرے کے خلاف پوائنٹ سکورنگ کے لیے اختیار کی گئی بلیم گیم کی سیاست نے اہم ترین ریاستی ادارے سپریم کورٹ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور عدلیہ کے دامن کو خود اس کے اندر سے آگ لگنا شروع ہو گئی ہے یہ طے شدہ امر ہے کہ انصاف کی عملداری کے حوالے سے اور آئین کی محافظ وشارح کی حیثیت سے سپریم کورٹ کو بلند مقام حاصل ہے آئین کی دفعہ184 کی ذیلی دفعہ 3 کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملہ میں سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار دیا گیا ہے جسے سپریم کورٹ رولز کے تحت صرف چیف جسٹس سپریم کورٹ بروئے کار لا سکتے ہیں اسی اختیار نے جوڈیشل ایکٹوازم کا راستہ نکالا ہے جس سے ماضی میں بھی قباحتیں پیدا ہوتی رہی ہیں اس حوالے سے جسٹس سجاد علی شاہ’ افتخار محمد چوہدری اور جسٹس ثاقب نثار کے ازخود اختیارات کے استعمال سے متعلق بعض معاملات متنازعہ بھی بنے اور جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف ان کے اپنے گھر کے اندر سے بغاوت ہوئی جس کے نتیجہ میں انہیں چیف جسٹس کے عہدہ سے فارغ ہونا پڑا بعینہ اس وقت بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ازخود اختیارات کے استعمال کے معاملہ میں تقسیم ہوتی نظر آ رہی ہے جس کے لیے گزشتہ ایک سال سے حالات ناسازگار ہونا شروع ہو گئے تھے بدقسمتی سے عدلیہ بھی سیاست کی لپیٹ میں آئی اور عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے بعض فیصلوں میں انصاف کا ترازو واضح طور پر تحریک انصاف کے حق میں جھکتا نظر آیا تو ان فیصلوں سے متاثر ہونے والے سیاستدانوں کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے عدالت عظمیٰ میں پیدا ہونے والی تقسیم سے ہی حکومت کو عدالتی اصلاحات لا کر چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کا قانون منظور کرانے کا موقع ملا ہے جبکہ محاذ آرائی کے اس ماحول میں ریاستی انتظامی ادارے ایک دوسرے کے مدمقابل آئیں گے تو اس سے پورے سسٹم پر زد پڑنے کا اندیشہ لاحق ہو سکتا ہے ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین وقانون کی بالادستی برقرار رکھنے کیلئے تمام ادارے اور سیاسی قیادتیں اپنا مثبت کردار ادا کریں اگر ریاستی انتظامی ادارے اپنے اپنے آئینی اختیارات کے اندر ہی خود کو رکھنا قبول کر لیں تو اس سے قومی اتفاق رائے کی کوئی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔
41