71

پشاور کی کرنسی مارکیٹ پر کریک ڈائون سے ڈالر کی قیمت قابو میں آگئی

پشاور (نامہ نگار)ایک ایسی مارکیٹ جہاں چند ہفتے پہلے تک خاصی گہما گہمی ہوا کرتی تھی، کرنسی کی بولیاں لگتی تھیں اور ڈیلر جمع ہو جایا کرتے تھے اب مکمل طور پر سیل کر دی گئی ہے۔یہ ذکر ہے پشاور میں چوک یادگار میں قائم کرنسی مارکیٹ کا جہاں ان دنوں ویرانی ہے۔ایک کرنسی ڈیلر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چند روز پہلے وفاقی تحقیقاتی ادارے اور دیگر قانون نافد کرنے والے اہلکاروں نے تمام غیر لائسنس یافتہ کرنسی ایکسچینج کی دکانیں اور دفاتر بند کرا دیے تھے۔وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسی کے غیر قانونی کاروبار کو روکنے کے لیے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں قائم کرنسی ایکسچینج کے غیر لائسنس یافتہ دفاتر پر چھاپے مار رہا ہے۔پشاور کی چوک یادگار میں قائم غیر لائسنس یافتہ دفاتر اور دکانیں سیل کر دی گئی ہیں اور 28 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔یہ کارروائی ڈالر کی اونچی اڑان کو روکنے کے لیے کی گئی۔ ان کارروائیوں اور پاکستان افغان سرحد کی بندش کے بعد روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں کمی آئی ہے۔گذشتہ روز سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کیے گئے ریٹ کے مطابق ایک ڈالر 298 روپے کا ہو گیا ہے۔ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اداروں نے ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی شروع کر دی ہیں، جو اس وجہ سے ڈالر چھپا کر بیٹھے ہیں کہ جب قیمت بڑھ جائے گی تو وہ مارکیٹ میں لائیں گے۔پاکستان میں اگر تین بڑی کرنسی مارکیٹوں کا ذکر کیا جائے تو کرنسی ڈیلرز کے مطابق چوک یادگار میں قائم کرنسی مارکیٹ تیسرے نمبر پر آتی ہے۔اس میں پہلے نمبر پر کراچی کی کلفٹن میں قائم مارکیٹ اور دوسرے نمبر پر لاہور کے سوا بازار میں مارکیٹ بتائی جاتی ہے۔کراچی کی مارکیٹ ایک عمارت کے اندر فلیٹس میں قائم ہے جبکہ لاہور کی مارکیٹ بھی ایک عمارت کے اندر ہے جبکہ پشاور کی چوک یادگار میں قائم کرنسی مارکیٹ ایک کھلے پر ہجوم علاقے میں قائم ہے۔پاکستان کرنسی ڈیلرز اسوسی ایشن کے رہنما ظفر پراچہ نے بتایا کہ چوک یادگار میں قائم کرنسی مارکیٹ میں لگ بھگ چار سو چھوٹی بڑی دکانیں اور دفاتر ہیں جہاں کرنسی کی ایکسچینج کا کام ہوتا ہے۔ ان میں چند ایک کے پاس باقاعدہ لائسنس ہے اور وہ اس کے تحت کام کرتے ہیں لیکن بیشتر کے پاس اس کاروبار کے لیے کوئی لائسنس نہیں۔کرنسی ڈیلرز کے مطابق یہاں چھاپوں سے پہلے جب کاروبار عروج پر تھا تو کسی بھی ڈیلر کے پاس اگر کسی ملک کی کرنسی آ جاتی اور وہ کرنسی بیچنا چاہتا تو وہ کھلی جگہ پر آ جاتا اور بتاتا کہ اتنی رقم ہے وہ بیچنا چاہتا ہے تو باقی لوگ اس کی قیمت لگاتے اور یوں کامیاب بولی دینے والے کو وہ کرنسی دے دی جاتی۔خریدار ایک یا دو روز بعد پھر جب کرنسی کی قیمت بڑھ جاتی تو وہ بیچنے کے لیے بولی لگاتا تھا۔ایک کرنسی ڈیلر جو ماضی میں اسی چوک یادگار مارکیٹ میں کام کرتے رہے ہیں، اب وہ ایک ایکسچینج کمپنی کے ساتھ کسی اور علاقے میں کام کرتے ہیں۔انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس مارکیٹ میں ہنڈی اور حوالہ کا کاروبار بھی ہوتا رہا ہے اور یہ کاروبار انتہائی خفیہ رکھا جاتا اور ڈیلر کو ڈر ہوتا کہ کہیں چھاپہ نہ پڑ جائے اس لیے محتاط طریقوں سے کاروبار کیا جاتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ کام ایک عرصے سے جاری ہے لیکن حکام کی جانب سے چھاپوں کے دوران بند کر دیا جاتا ہے۔ظفر پراچہ نے بتایا کہ پشاور کی اس چوک یادگار مارکیٹ میں سب سے زیادہ ریال کا کام ہوتا ہے کیونکہ خیبر پختونخوا میں زیادہ تر افراد سعودی عرب میں مقیم ہیں اور وہاں سے وہ رقم بھیجتے ہیں۔دوسرے نمبر پر درہم اور تیسرے نمبر پر ڈالر کا کاروبار ہوتا رہا ہے۔ ان دنوں مارکیٹ بند ہے اور کاروبار ٹھپ ہے۔ اس کاروبار میں افغان شہری بھی شامل ہیں کیونکہ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے رشتہ دار بھی بڑی تعداد میں باہر ممالک میں رہتے ہیں۔پاکستان بننے سے پہلے جب دلی، پشاور اور کابل کے درمیان تجارت ہوتی تھی تو چوک یادگار میں ہی کاروبار اور رقم یا سکوں کی تبدیلی کے لیے آتے تھے۔کابل میں ماضی میں جو کرنسی تھی اسے روپیہ بھی کہا جاتا ہے اور عام زبان میں کرنسی کے لیے کالدار کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ آج بھی کچھ لوگ کالدار کا لفظ استعمال کرتے ہیں جبکہ اب افغان کرنسی کو افغانی کہا جاتا ہے۔کرنسی ڈیلرز کے مطابق 1970 سے پہلے یہاں کرنسی ایکسچینج کے لیے کوئی لائسنس نہیں ہوا کرتے تھے اور لوگ اپنے طور پر ہی کاروبار کیا کرتے تھے۔ سنہ 1981 کے بعد سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کچھ ڈیلرز کو لائسنس جاری کیے تھے لیکن پھر وہ کینسل کر دیے گئے تھے۔افغانستان پر روس کے حملے کے بعد جب بڑی تعداد میں افغان شہری ہجرت کر کے پاکستان آئے تو وہ اپنے ساتھ اپنی کرنسی افغانی بھی ساتھ لائے لیکن ان دنوں میں افغان کرنسی کی قدر پاکستان کے روپے کے مقابلے میں بہت کم تھی۔پشاور کی تاریخ اور تجارت پر کام کرنے والے معاشی تجزیہ کار ضیا الحق سرحدی نے بتایا کہ چوک یادگار بنیادی طور پر کابل اور دلی کے درمیان تجارت کا بڑا مرکز تھا۔ یہاں افغانستان سے زیادہ تر پھل آتے تھے اور یہاں کرنسی ایکسچینج بھی ہوتی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ انھیں یاد ہے کہ 1965 اور 1966 میں وہ افغانستان جایا کرتے تھے اور اس وقت پاکستان کے دس روپے 100 افغانی کے برابر ہوتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ 1979 میں جب بڑی تعداد میں افغان شہری ہجرت کر کے آئے تو اس وقت یہاں چوک یادگار میں افغان کرنسی بوریوں میں لائی جاتی تھی۔ اکثر افغان تاجر جب سامان کی خریداری یہاں کرتے تو افغان کرنسی دیتے تھے جسے سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔ان دنوں افغان کرنسی پاکستان کے روپے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے اور جہاں ایک افغانی پاکستان کے چار روپے کے برابر ہے جبکہ پاکستان میں ڈالر 300 روپے کے لگ بھگ اور افغانستان میں ڈالر 80 افغانی کے برابر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں