25

پٹرولیم مصنوعات پر 18 فیصد جی ایس ٹی لگانے پر غور

اسلام آباد(بیوروچیف)آئندہ بجٹ کے میکرو اکنامک فریم ورک پر پاکستان اور آئی ایم ایف کی سوچ مختلف ہے۔ سی پی آئی کی بنیاد پر2024-25میں اوسط مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد رہے گی۔آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ سرمایہ کاری پالیسی اور وہ ایس آئی ایف سی (جس کا بہت شوروغوغا ہے)کے کام کی شفافیت کے حوالے سے مسودہ شیئر کرے۔ آئی ایم ایف نے سی پیک کے تحت بننے والے خصوصی اقتصادی زونز کے تحت حکومت کاجانب سے دیے جانے والے استثنی کی بابت بھی دریافت کیا۔ ای ایف ایف پروگرام کیلیے رسمی مذاکرات تاحال شروع نہ ہوسکے، وزیر خزانہ پراعتماد ہیں آئی ایم ایف سے سودے بازی ہوجائیگی۔ نان ٹیکس آمدن کے ہدف کے حوالے سے آئی ایم ایف نان ٹیکس آمدن میں زیادہ سے زیادہ اضافے کا خواہاں ہے اور اس مقصد کیلیے پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کے ذریعے 10 کھرب 80 ارب روپے آئندہ سال اکٹھا کرنے کی تجویز پر غور کر رہی ہے جو کہ پٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی کی جگہ لگایاجائیگا۔ آئی ایم ایف نے 18پٹرولیم مصنوعات پٹرول ،ڈیزل اور پی ڈی ایل پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگانے کی سفارش کی تھی ۔ حکومت اسی شرح کے حساب سے لیوی نافذ کرنے کا طریقہ تلاش کر رہی ہے کیونکہ اس طرح یہ رقم این ایف سی ایوراڈ کے تحت قابل تقسیم پول میں نہیں جائے گی اور اس طرح اسے صوبوں میں تقسیم ہونے سے بچایاجاسکیگا۔ دورے پر آئی ہوئی آئی ایم ایف کی ٹیم جو کہ ایک اسیسمنٹ مشن کی قسم ہے اس نے ابھی تک ہونے والی بات چیت کو پاکستانی حکام سیوسط مدتی ای ایف ایف بیل آوٹ پیکج کے لیے سے رسمی مذاکرات کا درجہ نہیں دیا ہے۔ دونوں فریقین کے خیالات آندہ مالی بجٹ کے میکرو اکنامک فریم ورک کے حوالے سے مختلف ہیں۔ آئی ایم ایف نے وزارت خزانہ کی جانب سے پیش کیا گیا کلاں معیشت (میکرو اکنامک)فریم ورک کو ماننے سے انکار کر دیا ہے ۔ ابھی تک جو کلاں معیشت کا فریم ورک برائے بجٹ 2024-25 پیش کیا گیا ہے اس کے مطابق ترقی کی شرح 3.5 فیصد رہے گی جبکہ سی پی آئی کی بنیادپر مہنگائی 12.7 رہے گی۔ موجودہ مالی سا ل 2023-24 کے لیے جی ڈی پی کی فگر 2 سے 2.5 فیصد کے دورمیان رہ سکتی ہے اور اس کا سرکاری ہدف 3.5 فیصد ہوسکتا ہے۔ میکرواکنامک فریم ورک کی فائنلائزیشن سے جی ڈی پی کے معمولی اعدادوشمار پر مزید کام کیاجائیگاجن میں ایف بی آ ر سے ہونے والی آمدن، نان ٹیکس آمدن اور اخراجات بالخصوص قرض کی ادائیگی پر آنے والے بڑے اخراجات شامل ہیں۔آئی ایم ایف نے قرض کی ادائیگی پر 97 کھرب 87 ارب روپے خرچ ہونے والے ہیں اور اب وزارت خزانہ مجموعی قرض کی ادائیگی پر کام کر رہی ہے اور اس کا انحصار ٹھیک پرائمری سرپلس پر ہے جو آئندہ بجٹ سے حاصل ہوسکے گا۔ ایس آئی ایف سی کے حوالے سے پاکستانی فریق نے آئی ایم ایف کی تخمینہ لگانے والی ٹیم کو بتایا ہے کہ نئی سرمایہ کاری پالیسی تیاری کی جارہی ہے اور ان کی بھرپورتیاری کے بعد ان کا اعلان کیاجائیگا۔ آئی ایم ایف نے ایس آئی ایف سی کے کام میں شفافیت یقینی بنانے کیلیے کہا۔ آئی ایم ایف کی ٹیم نے مختلف پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کے ممکنہ پوٹینشل کے حوالے سے دریافت کیا بالخصوص پی آئی اے کی اور ریاستی کنٹرول میں چلنے والے دیگر کاروباری اداروں کے حوالے سے پوچھا۔ آئی ایم ایف نے سی پیک کے تحت بننے والے چار خصوصی صنعتی زونز کو دیے گئے ٹیکس استثنی کے حوالے سے بھی پوچھا۔ اس پر سرمایہ کاری بورڈ کے اعلی عہدیداروں نے آئی ایم ایف کی ٹیم کو بتایا کہ دراصل دودرجن سے زائد خصوصی صنعتی زون موجود ہیں اور یہ چار اس فہرست مین شامل ہورہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں