حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کا آغاز ہو چکا جو سیاسی استحکام کیلئے ضروری سمجھا جا رہا ہے دونوں اطراف سے ارکان کے نام دیئے گئے تاہم پی ٹی آئی کے چند راہنمائوں کی عدم شرکت پر سوال اٹھائے گئے مگر پی ٹی آئی نے اجلاس میں شرکت نہ کرنے والے راہنمائوں کی مصروفیت قرار دیکر حکومتی پارٹی کو مطمئن کر دیا اور مذاکرات کے جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے تاہم مذاکرات کے اس عمل کو کسی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے ابھی بہت سے مراحل باقی ہیں حزب اختلاف اور حکومت وقت کے دوبدو مطالبات کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس جاری عمل سے فوری نتائج نکالنا بہت مشکل ہے لہٰذا کسی بھی اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے طویل مدت درکار ہو گی پی ٹی آئی اور اس کی قیادت پر سنگین الزامات اور ایسے مقدمات ہیں جن میں ریاست مخالف اور شرپسندانہ تحزیب کاریوں کے ثبوت موجود ہیں لیکن پھر بھی ریاست کا مذاکرات کی جانب مائل ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی دبائو نے حکومت کو مجبور کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کئے جائیں جن کو مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے ان کے رویے کرفت ہیں اور دھمکیوں کی زبان استعمال کرنے سے ہرگز دریغ نہیں کر رہے ایسے حالات میں مذاکرات چہ معنی دارد’ کس بات کا کھوج لگایا جا رہا ہے کس علت کو معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اگر تو ریاست کے قوانین میں کوئی سقم موجود ہے تو اسے اسمبلی کی سطح پر مربوط قانون سازی کر کے دودھ کا دودھ پانی کاپانی کیا جائے مذاکرات کے حوالے سے حکومتی سطح پر جو بیانات سامنے آ رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ حکومت کسی دبائو میں ہے جبکہ ریاست عام طور پر دبائو میں آ کر مذاکرات کرنے سے گریز کرتی ہے اور اگر مجرموں اور اس کے ساتھی جارحانہ رویہ رکھیں تو ریاست اپنی پالیسی اور قانون کے مطابق سخت اقدامات کرتی ہے اگر مذاکرات سے امن کی امید ہو تو ریاست غور کر سکتی ہے لیکن مجوزہ حالات میں مذاکرات ایک مذاق ہی ہیں جبکہ دونوں طرف سے دھونس دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں ایک طرف سول نافرمانی کی دھمکی دوسری جانب 9مئی کے واقعہ کو سول نافرمانی سے بڑا جُرم قرار دیا جا رہا ہے عجیب سی کشمکش دونوں جانب نظر آ رہی ہے پی ٹی آئی راہنما اسد قیصر کہہ رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کے بغیر کوئی بھی بات چیت بے معنی رہے گی جس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ مذاکرات بے نتیجہ ہی رہیں گے جس سے یہ بات ظاہر ہے کہ پارٹی میں جمہوریت نہیں آمریت ہے جو کہ فرد واحد کے فیصلوں کے محتاج ہیں تو مذاکرات کیسے کسی منڈھیر پر چڑھیں گے پی ٹی آئی راہنمائوں کی طرف سے جو اشارے مل رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پارٹی کے اندر تقسیم پائی جاتی ہے تحریک انصاف کے مطالبات پر حکومت کوئی ضمانت دینے کی پوزیشن میں ہی نہیں اور نہ ہی ان مطالبات پر کوئی رعایت دے سکتی ہے کیونکہ سرفہرست عمران خان اور دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبہ کو حکومت تسلیم کرنے کی پوزیشن میں نہیں چونکہ مقدمات عدلیہ میں ہونے کے سبب حکومت بے اختیار ہے اور اب عدلیہ سے ہی ان کا فیصلہ ہو سکتا ہے،، حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کا ان دنوں بہت چرچا ہے لیکن فی الحال مذاکرات کے بارے میں نتیجہ خیز ہونے کے بارے میں کچھ یقین سے کہنا مشکل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی جو مطالبات کر رہی ہے ان کو حکومت کے لیے تسلیم کرنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے لہٰذا اگر پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات پر زور دیا تو مذاکرات بے نتیجہ ہی رہ سکتے ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو سیاسی عدم استحکام کو جاری رہے گا حکومت ملک سے سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ چاہتی ہے اور اسی بناء پر حکومت نے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی تھی مگر مذاکرات میں پی ٹی آئی کے مطالبات سامنے آنے کے بعد حکومت بھی سوچ میں پڑ گئی ہے اصولی طور پر تو یہ چاہیے کہ پی ٹی آئی قیادت اپنے اندر نرمی پیدا کر کے مذاکرات کرتی اور بتدریج اپنے مطالبات پیش کرتی جبکہ دھمکی اور دھونس والا رویہ اختیار کرنے سے گریز کرتی مگر اس پارٹی میں نرمی نام کو نہیں ان کو صرف یہ گمان کہ سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت ان کے ساتھ ہے اور وہ جب چاہیں ملک میں افراتفری مچا سکتے ہیں لیکن پی ٹی آئی قیادت شائد بھول رہی ہے کہ 9مئی اور 26نومبر کے واقعات کو بھلایا نہیں جا سکتا ملٹری کورٹس سے مجرموں کو سزائین ملنا شروع ہو گئی ہیں لہٰذا اب ایسے سوشل میڈیا صارفین جو قومی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں ان کے گرد بھی شکنجہ کسنے کی تیاری کی جا رہی ہے لہٰذا ایسے میں اب پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا کارکنوں پر انحصار کرنا خاصا دشوار ہو سکتا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ٹی آئی قیادت حکومت سے بامقصد مذاکرات کرے اور صاف ستھری سیاست کو فروغ دے کر خود کو قومی دھارے میں لائے ملکی ترقی وخوشحالی کیلئے مثبت کردار ادا کرے۔
5