29

پی ڈی ایم کا چیف جسٹس سے استعفے کا مطالبہ (اداریہ)

پی ڈی ایم نے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے، سپریم کورٹ کے باہر دیئے گئے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز’ مولانا فضل الرحمان سمیت پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کے راہنمائوں نے کہا ہے کہ 60 ارب روپے کے مجرم کو خوش آمدید کہا گیا طاقت کے غلط استعمال سے چار تین کے فیصلے کو تین دو کے فیصلے سے بدلا ہم اقلیتی فیصلے کو کیوں مانیں؟ جس ملک میں انصاف مانگنا جرم ہو وہاں عدالتوں سے کیا توقع رکھیں، عمران کو دھاندلی سے جتوایا گیا، حکومت پر ہاتھ ڈالا تو تحفظ کرینگے عدالتی وقار کیلئے چند ججز کو قربان کرنا ہو گا، آئین سازی اور قانون سازی سوائے پارلیمان کے کسی کا اختیار نہیں اگر کوئی عدلیہ میں بیٹھ کر یا کسی اور جگہ بیٹھ کر یہ خواہش کرے کہ وہ ریاست کے اختیارات استعمال کرے تو پھر وہ سیٹ چھوڑ کر آ جائے،، پی ڈی ایم کے سپریم کورٹ کے باہر دھرنے اور احتجاجی مظاہرے میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال سے استعفے کا مطالبہ پورا ہوتا ہے یا نہیں اس بارے کچھ کہنا قبل ازوقت ہے عمر عطا بندیال 16 ستمبر 2023ء کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے اور ابھی چار ماہ تک وہ اپنے عہدے پر قائم رہیں گے قومی اسمبلی نے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کیلئے تحریک کی منظوری دے دی ہے حالات نازک موڑ کی طرف جا رہے ہیں ایک طرف پی ڈی ایم سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کر کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے استعفیٰ مانگ رہی ہے تو دوسری جانب قومی اسمبلی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس لانے کی تحریک منظور کر لی ہے جس کے بعد معاملہ سلجھتا نظر نہیں آ رہا، اقتدار کیلئے جاری رسہ کشی نے ملک کو خانہ جنگی جیسی کیفیت سے دوچار کر دیا ہے تحریک انصاف اقتدار پر قبضے کیلئے بے تاب ہے جبکہ حکمران اتحاد ملک کو اپنی آئینی وانتظامی اقدامات بروئے کار لا رہی ہے اس افسوسناک رسہ کشی سے ملک کو جو خطرات لاحق ہو چکے ہیں وہ قوم کیلئے لمحہ فکریہ اور باعث تشویش ہیں حکومت ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی سے بچنے کیلئے اپنے موقف میں لچک کے اشارے دیتی رہی ہے مگر عمران خان کا رویہ عدالت عظمیٰ سے رعائتیں ملنے کے بعد مزید جارحانہ ہو گیا ہے پارلیمنٹ اور عدالت کے محاذوں پر لڑائی اب فیصلہ کن جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے جس کا نقصان ملک وقوم کو ہو گا اس وقت ملک میں جو حالات چل رہے ہیں ان میں سیاسی قیادت کا کردار نہایت غیر دانش مندانہ دکھائی دے رہا ہے عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں ملکی معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال ان مسائل کو مزید بڑھا رہی ہے اس صورتحال میں سیاسی کشمکش جلتی آگ پر تیل کا کام کر رہی ہے 9 مئی کے واقعات کی چھان بین تو یقینا ہونی چاہیے اور اس دن کے واقعات میں ملوث افراد کو نشان عبرت بھی بنایا جانا چاہیے لیکن سیاسی قیادت کو باہمی مشاورت کے ذریعے ایک نئے میثاق جمہوریت کے بارے میں بھی غور کرنا چاہیے کیونکہ ملکی حالات صرف اسی صورت بہتر ہو سکتے ہیں جب سیاسی قائدین اپنے اختلافات بھلا کر ملکی اور عوامی مفادات کو مقدم جانتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جائیں، عدلیہ کو ملک کے آئین کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں کسی مجرم کو خوش آمدید کہنا معزز ججز کو زیب نہیں دیتا پارلیمنٹ اور عدلیہ کی لڑائی بنتی نہیں ایک فریق آئین وقانون سازی کا ادارہ دوسرا آئین اور قانون پر عمل کرنے اور اس کی تشریح کرنے والا ادارہ ہے دونوں کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے تاکہ دونوں فریقین کے مابین اختلافات جنم نہ لے سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں