4

ڈیجیٹل دنیا کا نفسیاتی اثر: ذہنی صحت کا نیا عالمی بحران

آج کی دنیا میں ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ موبائل فون، سوشل میڈیا، آن لائن گیمز اور مسلسل آن لائن کنیکشن نے انسانی زندگی کو سہولت دی ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت پر غیر متوقع اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، ڈیجیٹل دنیا کی تیز رفتار ترقی کے باعث ایک نیا عالمی بحران ابھر رہا ہے: ذہنی دبائو، تنہائی، ڈپریشن اور بے چینی کی بڑھتی ہوئی شرح۔
ڈیجیٹل دنیا اور ذہنی دبائو
سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز لوگوں کی زندگی میں مستقل مقابلہ بازی اور غیر حقیقی معیار قائم کر رہے ہیں۔ ہر لمحہ دوسروں کی کامیابیوں، خوشیوں اور سوشل زندگی کی جھلکیوں سے روبرو ہونا ایک نفسیاتی دبائو پیدا کرتا ہے۔ نوجوان اور بچے اس دبائو کے زیادہ شکار ہیں کیونکہ وہ اپنی شناخت اور خود اعتمادی بنانے کے مراحل میں ہوتے ہیں۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ وقت آن لائن گزارنے والے افراد میں خود اعتمادی کی کمی، اداسی اور تنہائی کے احساسات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ نوجوان اپنی حقیقی زندگی کے تجربات اور مہارتوں کی جگہ آن لائن تعریف اور پسندیدگی کے معیار پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
تنہائی اور سماجی تعلقات میں کمی
آن لائن رابطے نے جہاں آسانیاں پیدا کی ہیں، وہیں حقیقی زندگی کے تعلقات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لوگ زیادہ تر وقت موبائل یا سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں، جس کی وجہ سے ذاتی ملاقاتیں اور دوستانہ تعلقات کمزور پڑ گئے ہیں۔
سماجی علیحدگی اور تنہائی کے بڑھتے ہوئے اثرات ذہنی دبائو اور بے چینی کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، ایسے افراد جو زیادہ تر آن لائن وقت گزارتے ہیں، وہ حقیقی زندگی میں جذباتی طور پر کمزور اور دوسروں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
نیند اور دماغی سکون پر اثرات
ڈیجیٹل آلات کی مسلسل نمائش نیند کے معیار کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ رات دیر تک موبائل، کمپیوٹر یا ٹی وی دیکھنا دماغ میں میلاٹونن ہارمون کی پیداوار کو کم کر دیتا ہے، جس سے نیند کا نظام متاثر ہوتا ہے۔ نیند کی کمی کے نتیجے میں ذہنی دبائو، توجہ کی کمی، یادداشت کے مسائل اور روزمرہ کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
نوجوان نسل میں ڈپریشن اور بے چینی
نوجوان اس مسئلے کے سب سے زیادہ شکار ہیں۔ مسلسل آن لائن موجودگی، سوشل میڈیا پر منفی تبصرے، اور جسمانی یا سماجی مقابلے کی نفسیاتی حساسیت نوجوانوں میں ڈپریشن اور بے چینی پیدا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ خود اعتمادی کی کمی، خود تنقیدی سوچ اور موازنہ کرنے کی عادت بھی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈالتی ہے۔
ڈیجیٹل دنیا اور بچوں پر اثرات
بچوں کی نفسیاتی صحت بھی اس تبدیلی سے متاثر ہو رہی ہے۔ آن لائن گیمز اور موبائل ایپس کے استعمال میں اضافہ بچوں کی توجہ، سماجی مہارتوں اور تعلیمی کارکردگی پر اثر ڈال رہا ہے۔ والدین اور اساتذہ کا کردار یہاں انتہائی اہم ہے تاکہ بچوں کو آن لائن دنیا کے نقصان دہ اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔
حل اور آگاہی کی ضرورت
ماہرین نفسیات تجویز کرتے ہیں کہ ڈیجیٹل دنیا کے اثرات کو کم کرنے کیلئے ذاتی اور معاشرتی سطح پر اقدامات ضروری ہیں:
سوشل میڈیا اور آن لائن وقت کو محدود کرنا
روزانہ جسمانی سرگرمی اور ورزش کو معمول بنانا
حقیقی زندگی کے سماجی تعلقات کو ترجیح دینا
ذہنی سکون کے لیے مراقبہ، یوگا اور ریلیکسیشن سرگرمیوں کو شامل کرنا
والدین اور اساتذہ کی جانب سے بچوں کی آن لائن عادات کی نگرانی اور رہنمائی
مزید برآں، اسکول اور کالج سطح پر بھی پروگرام ترتیب دینا ضروری ہے تاکہ نوجوانوں میں ڈیجیٹل ذہنی دبائو کے بارے میں آگاہی پیدا ہو اور وہ اپنی آن لائن عادات کو متوازن رکھ سکیں۔
ڈیجیٹل دنیا میں ذمہ دارانہ رویہ
ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل دنیا کے استعمال میں ذمہ داری کا اصول بہت اہم ہے۔ ہر فرد کو خود سے یہ طے کرنا چاہیے کہ کب آن لائن رہنا ہے اور کب حقیقی زندگی کے تعلقات اور سرگرمیوں کو ترجیح دینی ہے۔ اس کے ساتھ ہی والدین، اساتذہ اور معاشرہ بھی نوجوانوں کو مثبت اور صحت مند آن لائن عادات اپنانے کی ترغیب دیں۔
نتیجہ
ڈیجیٹل دنیا نے جہاں زندگی کو آسان اور معلوماتی بنایا ہے، وہاں اس کے اثرات ذہنی صحت پر سنگین بحران کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ اگر ہم اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیں، تو آنے والے وقتوں میں یہ عالمی سطح پر ذہنی صحت کا بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کو دانشمندی سے استعمال کریں، آن لائن اور آف لائن زندگی میں توازن برقرار رکھیں، اور اپنی اور اپنے بچوں کی ذہنی صحت کا تحفظ کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں