35

کیا ان انتخابات کے بعد ملک میں استحکام آئے گا؟

اسلام آباد (بیوروچیف)کیا ان انتخابات کے بعد ملک میں استحکام آئے گا؟فی الحال ایسا ہوتا مشکل نظر آ رہا ہے کیونکہ عوام اور سیاسی جماعتیں اب بھی ایک تقسیم کا شکار نظر آ رہی ہیں۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ استحکام آنا تو چاہیے۔ سب کو بیٹھنے کا فیصلہ کرنا چاہییے۔ پنجاب میں سخت مقابلہ تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک پارٹی جیت رہی ہے۔ لیکن اب گرینڈ ڈائیلاگ کی جانب جانا چاہیے۔ اگر یہ نہ ہوا تو یہ دائرے کی طرح چلتا رہے گا اور ہم یونہی گھومتے رہیں گے۔ان کی تجویز ہے کہ اب عمران خان کو بھی بات کرنی چاہیے۔۔۔ اگر لوگ نتائج تسلیم نہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلیں گے تو پھر مذاکرات اور بات چیت ہی ہو گی۔لیکن مائیکل کوگلمین کے مطابق یہ مشکل ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ یہ انتخابات پاکستان میں استحکام لے کر آئیں گے۔ یہ قوم کو مزید تقسیم کریں گے جو پہلے ہی پولرائزیشن کا شکار ہے۔ پاکستان کو اس وقت نہ صرف شدید معاشی بحران کا سامنا ہے بلکہ دہشت گردی میں بھی دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں پی ٹی آئی کا ایک بڑا بیس ہے۔ اور جماعت غصے اور افسوس کا شکار بھی ہے۔ کیونکہ اس کے ووٹرز نے بڑی تعداد میں انتخابات میں حصہ لیا اور پھر ان کے انتخابات کا نتیجہ روک دیا گیا۔ اور اب انھیں اپنے تلخ مخالفین کا سامنا ہے۔ پاکستان کو عوامی غصے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ شورش کا واقعی خطرہ کا سامنا کر رہا ہے۔یہاں یہ سوال بھی ہے کہ ایک غیر مستحکم پاکستان کو دنیا کیسے دیکھے گی اور یہ عالمی طاقتوں کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان ایک نیوکلیئر طاقت ہے اور یہ ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو علاقائی اعتبار سے اہم ہے۔پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں تلخی بڑھی ہے جبکہ انڈیا کے ساتھ کئی جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ حال ہی میں ایران کی جانب سے میزائل حملہ اور پاکستان کی جوابی کاروائی نے ایک بار پھر ملک کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا تھا۔ دہشتگردی میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ تعلقات اتار چڑھا جاری رہتا ہے اور چین پاکستان کا قریبی دوست ہے۔عاصمہ شیرازی کے مطابق دیگر دنیا کے ساتھ ساتھ خود پاکستان کی عوام کے لیے ملک کو مستحکم بنانا ضروری ہے۔ ان کے مطابق پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے سرحدی علاقے پرامن نہیں ہیں، انڈیا اور طالبان کے کنٹرول میں فغانستان کے سرحد ہے تو دوسری جانب حال ہی میں ایران کے ساتھ بھی تلخی سامنے آئی۔ پاکستان کا ایک نیوکلیئر طاقت ہے جو مغربی طاقتوں کے لیے ہمیشہ ایک اہم نقطہ رہا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو۔ اور انتخابات کا عمل تو ہوتا ہی ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ہے۔عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ انھیں امید ہے کہ ان انتخابات کے بعد بالآخر ملک میں استحکام آئے گا۔ تاہم مائیکل کگلمین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔وہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں اس وقت جاری عالمی تنازعات کے بیچ پاکستان کا الیکشن اور سیاسی عدم استحکام ایک چھوٹی بات لگتی ہے مگر یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں بڑی تعداد میں نوجوان ہیں۔ اس ملک کی سرحدیں تنازعات کا شکار ہیں، یہاں معاشی دبا ہے اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی ہے۔ تو دوسری جانب ریاست اور معاشرے کے درمیان گہری ہوتی تقسیم ہے۔ اس انتخاباتی کرائس نے ملک کے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔اب تک سامنے آنے والے نتائج سے یہ نظر آ رہا ہے کہ ملک میں آئندہ حکومت بھی اتحادی جماعتوں سے قائم ہو گی اور کسی ایک جماعت کو واضح برتری حاصل نہیں ہوگی۔تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے لیے یہ ایک اہم موقع ہے کہ وہ مل بیٹھیں اور بات چیت کرتے ہوئے ایسا نظام وضع کریں جو آئندہ انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں