اسلام آباد (بیوروچیف) پاکستان میں گندم کی گرتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر پیداوار میں کمی کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ 2024-25کے ربیع کے عرصے میں ملک کو دھچکا لگ سکتا ہے کیونکہ کسان گندم اگانے سے گریزاں ہیں اور اس سے غذائی سلامتی کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ قیمتوں میں کمی گندم کی پیداوار میں خاصی کمی کر سکتی ہے جس سے ملک میں پہلے سے موجود غذائی سلامتی کا معاملہ زیادہ سنگین ہوسکتا ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کے ذمے 3ارب روپے کے بقایاجات ہیں اور پاسکو کے مالیاتی مسائل مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں جن سے گندم کے ذخائر کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔سینیٹ نے گندم کی درآمد میں کرپشن کے اسکینڈل کی تحقیقات کیلیے کمیٹی بنادی ہے۔ گندم پاکستان کے زرعی سیکٹر میں 9 فیصد کی حصہ دار ہے جبکہ مجموعی قومی پیداوار میں اس کا حصہ 2.2 فیصد ہے اور یہ کروڑوں پاکستانیوں کی روزمرہ کی غذا ہے۔ گندم کی پیداوار کو بڑھتے ہوئے چیلنجوں کا سامنا ہے، پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (PASSCO) کو بھی مالی دبائو کا سامنا ہے۔ کارپوریشن، جو قیمتوں کو مستحکم کرنے کے لیے گندم کے ذخائر کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، کمرشل بینکوں کے قرضوں پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے جو کہ اس کے مالیات کا 75 فیصد احاطہ کرتی ہے۔ پاسکو نے صوبائی محکمہ خوراک اور دیگر سرکاری اداروں سے مجموعی طور پر 194.746 ملین روپے کی وصولیاں بھی جمع کی ہیں۔ اس دوران، ٹیکسٹائل سیکٹر، جو پاکستان کی برآمدات کو چلاتا ہے، پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی (PCCC) کے تقریبا 3 ارب روپے کاٹن سیس کے بقایا جات کا مقروض ہے۔ اپنے واجبات کی ادائیگی کے بجائے، بہت سی ٹیکسٹائل فرموں نے قانونی چارہ جوئی کا انتخاب کیا ہے، 121 صنعتوں نے سیس کے خلاف 65 مقدمات درج کرائے ہیں۔ ان میں سے 63 کیسز کا فیصلہ پی سی سی سی کے حق میں ہو چکا ہے جن میں سے دو کیسز اب بھی پشاور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔
4