مملکت خداداد پاکستان کا قیام عمل میں آنے سے پہلے برصغیر میں مسلمان’ سکھ’ ہندو’ عیسائی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اکٹھے رہے، یہاں پر زیادہ تعداد ہندوئوں کی تھی اس لئے برصغیر کے کلچر پر ہندو کلچر کی بڑی گہری چھاپ لگی جو ابھی تک ختم نہیں ہو سکی، موجودہ دور میں ترقی کے عمل نے کئی پرانی چیزوں کو ختم کر ڈالا ہے، کمپیوٹرائزڈ سسٹم بھی تبدیلی کے اس عمل کا ذریعہ بنا ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سی نئی چیزیں سامنے آئیں جبکہ ایجوکیشن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، تعلیمی اداروں’ مساجد اور دینی مدارس نے فروغ تعلیم کے لیے مثالی کارنامے سرانجام دیئے، دینی اجتماعات میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد ذوق وشوق سے شرکت کرتی ہے، یہ سب باتیں قابل صد تحسین ہیں مگر اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں ہندو کلچر ختم نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے، آج بھی ہماری غمی’ خوشی کی تقریبات حتیٰ کہ شادی بیاہ اور فوتگی کے مواقع پر ایسی بہت سی رسومات لازمی تصور کی جاتی ہیں جن کا دین اسلام کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، رسم ورواج تہذیب کے اجتماعی پہلوئوں کی عکاسی کرتے ہیں، ہر قوم کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ان رسم ورواج کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، یہ رسوم درحقیقت مختلف اسباب کا نتیجہ ہوتی ہے اور ان کے اسباب میں ملک یا علاقے کے مخصوص حالات اور بالخصوص مذہبی عقائد کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہوتی ہے، تاریخ کا کوئی زمانہ رسم ورواج کے اثرات سے خالی نہیں رہا ہے مگر یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کہ ہم اسلامی رسم ورواج پر مکمل عمل پیرا نہیں ہو سکے اور ہندو کلچر کی چھاپ ابھی تک ختم نہیں ہو سکی، مختلف مواقع پر جو رسمیں ہمارا معمول بن چکا ہے ان میں ہندو کلچر کی رسمیں بھی شامل ہیں اور ان رسومات کی پاسداری سے مسلم معاشرہ کی رسوائی ہوتی ہے اور اسلام نے جن بلند قدروں کو پروان چڑھانے کی ترغیب دی وہ نظرانداز ہو جاتی ہیں، شادی کے موقع پر بھی اسلامی روایات پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے، شادی ایک مبارک اور خوبصورت بندھن ہے اور اسلامی تعلیمات اس بارے بھی مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں، بے شک! دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور ان پر عمل کرنے میں ہمارا اپنا بھلا ہے مگر شادی بیاہ کے موقع پر ہم میں سے اکثر لوگ ان اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوتے، مختلف علاقوں میں شادی کا اہتمام اپنے اپنے رسم ورواج کے مطابق کیا جاتا ہے، پنجابی شادی کی روایات کو پنجابی ثقافت کا حصہ قرار دیا جاتا ہے، منگنی بھی پنجابی شادی کا ایک اہم حصہ ہے جس کے دوران دونوں خاندانوں کے درمیان تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے اور مٹھائی کھلا کر مبارکباد دی جاتی ہے، رسم حنا بھی پنجابی شادی کی روایات کا حصہ ہے مگر یہ باتیں محض پنجابی ثقافت کے سوا کچھ نہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم شادی کے خوبصورت اور مبارک بندھ کے موقع پر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں، شادی کے موقع پر گانا بجانا، مووی بنوانا اور تصویر کشی کی وباء عام ہو چکی ہے حالانکہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ شریعت میں یہ چیزیں سخت ناپسندیدہ اور حرام ہیں، ہمیں اس بارے میں خوب غوروخوض کرنا چاہیے، اگر ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے غلط تصورات پھیلے ہوئے ہیں شادی بیاہ کی تقریبات میں بیجا اسراف سے بھی کام لیا جاتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی پاسداری ہر جگہ نظر آئے اور شادی بیاہ کی تقریبات کو سادگی سے سرانجام دیتے ہوئے ون ڈش کی مکمل پابندی کی جائے مگر ہم اس موقع پر انواع واقسام کے کھانوں سے گریز نہیں کرتے اور ستم بالائے ستم یہ کہ جہیز اس قدر ضروری ہو چکا ہے کہ جب تک اس کیلئے رقم نہ ہو لڑکی کی شادی نہیں ہوتی اور ہمارے معاشرے میں کتنی ہی بچیاں صرف اس بناء پر بن بیاہی رہ جاتی ہیں اور یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے، نکاح کا سنت طریقہ جو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سکھایا وہ یہ ہے کہ مسجد میں نکاح کرو اور ولیمہ کرو’ جو نکاح جتنا سادہ اور کم مشقت والا ہو گا وہ اتنا ہی برکت والا ہو گا، مسجد میں نکاح کی تقریب کے دوران مسجد کے آداب کا بھی مکمل خیال رکھنا چاہیے، یعنی شور اور تصاویر بنانے سے اجتناب کریں اور اپنی وسعت کے مطابق باہمی رضامندی سے دو مسلمان عاقل وبالغ گواہان کی موجودگی میں نکاح پڑھوایا جائے’ کوشش کریں کہ بیوی کو مہر جلد ادا کریں، ولیمہ بھی مسنون طریقہ پر حسب استطاعت ہونا چاہیے، اس میں نام ونمود کی نیت نہ ہو، غیر شرعی امور نہ ہوں، مرد وزن ”روشن خیالی” کے نام پر ایک دوسرے سے ملتے نظر نہ آئیں اور دین اسلام نے جن باتوں سے منع کیا ہے ان سے مکمل گریز کرنا چاہیے، دیکھنے میں آیا ہے کہ اب گھروں میں بھی عورتوں کی حکومت ہے حالانکہ حدیث نبویۖ ہے کہ جن گھروں کا نظام عورتوں کے سپرد ہو ان کے مردوں کو پتھروں میں چلے جانا چاہیے، ہمیں اپنے گھروں کا مکمل خیال رکھنا چاہیے، گھروں میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے دوران اسلامی رنگ ہی نظر آنا چاہیے، ہم پر غیروں کا کلچر اس قدر اثرانداز ہے کہ بعض لوگ جمعرات کو کسی کام کا آغاز نہیں کرتے حالانکہ جمعرات کو عصر سے لیکر جمعتہ المبارک کے مغرب تک کا وقت افضل ہے، شب جمعہ اور جمعتہ المبارک کو درود شریف پڑھنے کے بڑے فضائل ہیں، حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جمعہ کی رات اور جمعہ کے دن کو کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پہنچایا جاتا ہے، اﷲ کرے ہمارے معاشرے سے غیروں کا کلچر مکمل ختم ہو جائے اور ہم اسلامی تعلیمات پر مکمل عمل پیرا ہوں، بے شک! اسی میں ہماری نجات اور کامیابی ہے۔
5