14

ہوشیار باش

دشمنی کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ لیکن اصول ان کے ہوتے ہیں جن کے ہاں اخلاقیات نام کی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ اللہ ہر کسی کو دشمن دے تو بااصول دے۔ وقت کی ایک اپنی رفتار ہے اور وقت نے تو اس کے مطابق گزر جانا ہے۔ گزر جانے والے ہمیشہ اپنے پیچھے یادیں چھوڑ جاتے ہیں اور اچھی یادوں کے سہارے مر کر بھی زندہ رہنے کی کوشش کی جا سکتی ہے اور جس کسی نے اپنی زندگی میں من مرضیاں کی ہیں اس کی قسمت میں کالک کے داغ دھبے۔ دشمن تو دشمن ہوتا ہے اس سے محتاط رہنا ہی دانائی ہے۔ چوکس رہنے والے ہر قسم کی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان جونہی معرض وجود میں آیا اس کے دشمن بھی متحرک ہو گئے اور پھر تو چل سو چل۔ 3نومبر 1947 کو تقسیم ہند کا اعلان کردیا گیا۔ اس منصوبے میں ویسے تو سب چیزیں واضح تھیں۔ لیکن اصل مسئلہ تو عملدرآمد کا ہوتا ہے۔ لارڈ ماونٹ بیٹن کا ویسے تو کردار ختم ہوگیا تھا۔ دو ملک معرض وجود میں آگئے تھے۔ لیکن اقتدار کی ہوس کہاں جاتی ہے۔ ویسے بھی محترم ماونٹ بیٹن صاحب نے برصغیر سے انگریزوں کا کھیل ختم ہونے کے بعد اپنی آخری آرامگاہ کی طرف کوچ کرنا تھا۔ جاتے جاتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔متذکرہ بالا شخص بصورت گورنر جنرل دونوں ممالک میں اپنا کردار برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ اس وقت کے مروجہ قوانین کے مطابق اختیارات کا سرچشمہ گورنر جنرل ہی تھا۔ ہمارے قائد نے تو آزادی کے بنیادی فلسفہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو صاف صاف انکار کردیا کہ جب انگریزوں سے آزادی حاصل ہو گئی ہے تو پھر انگریز گورنر جنرل کیوں۔ یہ تھی خالصتا سوچ کی کلیریئٹی لیکن جب نیت میں فتور ہو اور سوچ میں گھٹیا پن تو پھر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ انگریز ہندو گٹھ جوڑ۔ چنانچہ تقسیم ہند کے عملدرآمد میں ڈنڈی مارنے میں ماونٹ بیٹن اور نہرو پیش پیش اور حد کی زبردستی۔ اف اللہ۔ اثاثہ جات کی تقسیم میں بھی ناقابل بیان حد تک بدمعاشی۔ سارے وسائل پر غاصبانہ قبضہ اور ناجائز قبضہ چھڑوانے کے سلسلے میں کتی چوروں سے مل گئی۔ ایسی فضا پیدا کردی گئی کہ ہندو مسلم سکھ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ دونوں طرف خون کی ہولی کا کھیل شروع۔ عوام میں غلط فہمی کی انتہا اور پھر ہندو قیادت کا کھل کے کھیلنا۔ایسی لا اینڈ آرڈر کی صورت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ فوج کے تمام وسائل کا مرکز دہلی اور اس کا گردو نواح تھا۔ ہمارے حصے میں تو صرف فوج کی تربیت کرنے کا سٹاف کالج آیا اور فوج کی قیادت بھی انگریز کے ہاتھ میں اور وہ قیادت بھی زیادہ وقت برطانیہ گزار رہی تھی۔ اوپر سے نہرو کو اپنے لوگوں کو فریز کرنا کوئی مشکل نہیں تھا۔ نہتے اور لٹے پٹے مسلمان ہندوستان چھوڑ کر پاک سر زمین پر آگئے۔ ریاستوں کے الحاق کا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا خصوصا کشمیر، حیدر آباد اور جونا گڑھ۔ کشمیر اکثریت مسلمانوں کی اور حکمران غیر مسلم۔ جونا گڑھ اور حیدر آباد میں اکثریت آبادی ہندووں کی اور حکمران مسلمان۔ جغرافیا ئی لحاظ سے ان ریاستوں کی سرحدیں دونوں نوزائیدہ ممالک سے لگتی تھیں۔ تقسیم کے بنیادی اصول کے مطابق فیصلہ عوام کی اکثریت کی بنیاد پر کیا جانا تھا۔ مواخر الذکر کا فیصلہ رائے شماری سے اور کشمیر کا فیصلہ بندوق کی نوک سے۔ دشمن کھل کے کھیل رہا ہے اور ہمارے قائد فیصلوں کے عملدرآمد کے لئے جنرل گریسی کی طرف دیکھ رہے ہیں اور جنرل گریسی شاید ماونٹ بیٹن کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ہندوستان اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیتا ہے۔ جبر اور بدمعاشی کا خوفناک کھیل ۔ تنگ آمد بجنگ آمد قبائلی علاقوں کے مسلمانوں سے یہ سارا کچھ نہ دیکھا گیا اور پھر دوبدو لڑائی اور جذبہ ایمانی سے سرشار پاکستانی قوم نے کافی سارا علاقہ واگزار کروا لیا اور آزاد کشمیر۔ ہندوستان نے اقوام متحدہ کو آواز دی یوں جنگ بندی اور پاکستان کے لئے طفل تسلی۔ اقوام متحدہ کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان آنے جانے لگ گیا اور کشمیر دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ جوں کا توں کشمیری عوام بیچاری ظلم و ستم کا شکار۔ ساری دنیا کے سامنے پاکستان کا مسئلہ کشمیر کے حل کرنے مطالبہ۔ پوری دنیا کو سانپ سونگھ گیا ہے اور بھارت کا وحشیانہ طریقہ کار۔کشمیر کی صورت حال بد سے بد تر۔ 27 اکتوبر کو ایک نیا شب خون مارا گیا اور کشمیر کو مستقل طور پر ہندوستان کا حصہ بنانے کے لئے قانون سازی کردی گئی۔ آخری خبریں آنے تک اقوام متحدہ اور پوری دنیا کا ہندوستان کی اس غیر اخلاقی اور غیر قانونی حرکت پر مکمل طور پر چپ سادھ لینا۔ کچھ دال میں کالا کالا ہے۔ مذکورہ صورتحال کا جائزہ اس لئے پیش کیا گیا ہے تاکہ ہم سب کی آنکھیں کھل جائیں۔ اور ہم پوری طرح بیدار ہو جائیں اور ہوش کے ناخن لیں۔ غیروں اور اپنوں کا ہم سب کو پتہ ہونا چاہیئے۔ ہندوستان کا مکروہ چہرہ غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحد کی استعداد اور وہاں بھی ترقی یافتہ ممالک کی من مانیوں کا ہم سب کو بخوبی اندازہ ہونا چاہیئے۔ غیر پر انحصار اور ماضی کے تلخ حقائق۔ ماضی اور حال کو جوڑ کر منصوبہ بندی کرنے سے آنے والا کل بہتر ہو سکتا ہے۔ کل کو بہتر کرنے کیلئے گہرے سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ ہم ہیں کہ آپس میں گتھم گتھا۔ اقتدار کی رسہ کشی۔ عوام اور اداروں کے درمیان فاصلے اور بدقسمتی سے یہ فاصلے کم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ شور شرابہ اور باہر کی طرف دیکھ کر مزید شور شرابہ بلکہ باہر جاکر بہت ہی شور شرابہ۔ کاش ہم باہر والوں کی نیتوں سے آگاہ ہو جاتے اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر لیتے۔ بغل میں چھری رکھنے کی بجائے ایک دوسرے سے بغل گیر ہوجاتے۔ ایک دوسرے کی بین الاقوامی طور پر بدنامی کرنے کی بجائے ملک وقوم کی نیک نامی کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے۔ اقتدار کو اپنے تک محدود کرنے کی بجائے اس پر عوام کا حق تسلیم کر لیتے۔ میں نہ مانوں کی پالیسی کو مستقل طور پر زمین بوس کر دیتے۔ اپنے دشمن ہندوستان کے مقابلے میں اپنے آپ کو مضبوط بنانے کی حتی المقدور کوشش کرتے۔ ریاستی اداروں سے بدظن ہونے کی بجائے ان کے لئے نیک جذبات رکھتے اور سرکاری ادارے بھی عوام کی خدمت میں یکسو ہو جاتے۔ داخل بہتر ہونے سے ہی خارج کے معاملات بہتر ہو سکتے ہیں اور اپنے تمام دشمنوں کو پیغام دیا جا سکتا ہے کہ ہم ایک ہیں۔ اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے اور ضرورت آنے پر ہم اس ملک کی بقا اور استحکام کے لئے جان بھی دے سکتے ہیں۔ پیغام واضح ہو تو صورتحال واضح ہو جاتی ہے اور آپ کے دشمن کو بھی کان ہو جاتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے اگر آپ امن چاہتے ہیں تو جنگ کے لئے تیار ہو جائیں اور ہمارے پاس تو ایٹم بم بھی ہے۔ کوئی ہماری طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھے۔ ہوشیار باش۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں