45

14کھرب اخراجات کٹوتی پلان

اسلام آباد(بیوروچیف)کابینہ کمیٹی برائے اقتصادی بحالی نے ایک تفصیلی روڈ میپ پیش کر دیا ہے جس میں14کھرب اخراجات کٹوتی کا پلان پیش کیا گیا ہے جس کے تحت تنخواہیں، پنشن اور الاونسز منجمد ہوں گے اور افسران کا اسٹاف تناسب بھی کم ہو گا، کم اخراجات کیلئے غیر ہدف شدہ سبسڈیز اور گرانٹس پر نظرِ ثانی منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے۔پی ایس ڈی پی اور اے ڈی پیز میں تخفیف کی تجاویز بھی زیر غور ہیں جبکہ نئی اسکیمیں روک دی جائیں گی اور سپلیمنٹری گرانٹس کی اجازت نہیں ہو گی۔حکومت نے قابلِ عمل پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ منصوبوں پر توجہ مرکوز کر لی ہے اور کفایت شعاری اقدامات کے تحت متعدد تجاویز کو حتمی شکل دیدی گئی تاہم وفاق اور صوبائی سطح پر عمل درآمد کا ٹائم فریم واضح نہیں۔ تفصیلات کے مطابق اخراجات کو 14 کھرب روپے تک کم کرنے کی کوشش میں کابینہ کمیٹی برائے اقتصادی بحالی نے ایک تفصیلی روڈ میپ کا تصور کیا ہے جس میں تنخواہوں، پنشن اور الاونسز کو منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ افسر تا عملے کے تناسب کو کم کرنا شامل ہے۔نگراں حکومت نے کفایت شعاری کے اقدامات پر عمل درآمد کے لیے بنائے گئے جری منصوبوں کے تحت متعدد سفارشات کو حتمی شکل دی ہے جس میں کابینہ کمیٹی برائے اقتصادی بحالی (سی سی ای آر)نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ بتدریج 1:3 تک افسر تا عملہ کا تناسب کم کر دیں۔ تاہم سی سی ای آر اس بات کی وضاحت نہیں کرتا کہ اس نے اس جری منصوبے پر عمل درآمد کے لیے وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کو کتنا ٹائم فریم دیا ہے۔حکومت نے اخراجات کو کم کرنے کے لیے غیر ہدف شدہ سبسڈیز اور گرانٹس کا جائزہ لینے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا ہے۔رواں مالی سال کے آخری بجٹ میں10 کھرب 64 ارب روپے کی سبسڈیز کے بل ہیں جن میں سے پاور سیکٹر کی سبسڈیز 9 کھرب 70 ارب روپے کے مساوی بڑا حصہ استعمال کرنے والی ہیں۔حکومت نے بجٹ میں مختلف اداروں اور محکموں کو گرانٹس کی شکل میں14 کھرب روپے کی فنڈنگ کا تصور کیا ہے لہذا اس تمام بڑی فنڈنگ کا تفصیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔حکومت نے وفاقی سطح پر پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام اور صوبائی سطح پر سالانہ ترقیاتی منصوبوں میں کمی کی سفارش کی ہے تاکہ نئی اسکیموں کو روک کر تمام صوبائی نوعیت کی اسکیموں کو وفاق کی اکائیوں کو منتقل کیا جائے۔وزارتِ خزانہ کی جانب سے کیے گئے کام میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ وفاقی مینڈیٹ کی وجہ سے پی ایس ڈی پی اسکیموں پر دوبارہ توجہ مرکوز کرنے سے رواں مالی سال کے لیے وفاقی حکومت کے لیے 315 ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔نگراں حکومت بھی منتقل معاملات پر وفاقی اخراجات کو مرحلہ وار ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، منتقل شدہ وزارتوں کے آپریشنل اخراجات میں کمی سے 328 ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔حکومت نے قابلِ عمل پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔وفاقی سطح پر اندازہ لگایا گیا ہے کہ پی ایس ڈی پی کا 50 فیصد پورٹ فولیو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) اتھارٹی کو منتقل کیا جائے گا جسے پی 3 اے پائپ لائن کہا جاتا ہے۔حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط پر قائم رہنے کا تصور کیا ہے جس کے تحت رواں مالی سال کے لیے کسی قسم کی سپلیمنٹری گرانٹس کی اجازت نہیں ہوگی۔آئی ایم ایف کے 3 ارب ڈالرز کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام کے تحت آئی ایم ایف نے پروگرام کی مدت کے دوران سپلیمنٹری گرانٹس پر پابندی لگا دی ہے لہذا یہ رواں مالی سال میں بھی برقرار رہے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں