56

24سرکاری اداروں کی نجکاری کی منظوری (اداریہ)

حکومت کی نجکاری کمیٹی نے 24سرکاری اداروں کی نجکاری کی منظوری دے دی، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی زیرصدارت نجکاری کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں وزارت نجکاری کی طرف سے مرحلہ وار نجکاری پروگرام پیش کیا گیا اجلاس کے اعلامیے کے مطابق 84حکومتی ملکیتی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا 40کی درجہ بندی کی گئی فیصلہ کیا گیا کہ خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کو ترجیح دی جائے گی جبکہ منافع بخش اداروں کی نجکاری پر بھی غور کیا جائے گا اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ حکومت کا دائرہ کار اسٹریٹجک اور ضروری ریاستی اداروں تک ہو گا، اسٹریٹجک اور ضروری ریاستی ملکیتی اداروں کی درجہ بندی کی جائے گی درجہ بندی میں نہ آنے والے ایس او پیز کو نجکاری میں شامل کیا جائے گا، اجلاس میں 84 ایس اوز ایز کی نجکاری پر غور کیا گیا جبکہ نجکاری کمیٹی نے 24اداروں کی نجکاری کی سفارش کر دی، نجکاری کیلئے سفارش کئے گئے اداروں میں PIA فرسٹ ویمن بینک’ ایچ بی ایف’ زرعی ترقیاتی بینک’ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن’ پیکو’ جنکوون’ ٹو’ تھری’ فور شامل ہیں اس کے علاوہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں لیسکو’ آئیسکو’ میپکو’ حیسکو’ پیسکو’ سپیکو اور دیگر ادارے شامل ہیں’ اسٹیٹ لائف انشورنس’ سندھ انجینئرنگ لمیٹڈ’ پاکستان ری انشورنس کارپوریشن بھی نجکاری کی فہرست میں شامل ہے اعلامیے میں کہا گیا کہ اگلی میٹنگ میں مرحلہ وار نجکاری پروگرام کو حتمی شکل دی جائے،، خسارے میں چلنے والے 24حکومتی ملکیتی اداروں کی نجکاری کی منظوری خوش آئند ہے خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کو حکومت کب تک بیل آئوٹ دیتی رہے گی بہتر یہی ہے کہ ایسے اداروں کو نجی شعبہ کے حوالے کر دیا جائے تاکہ حکومت پر جو بوجھ ہے اس میں کمی ہو سکے نجی شعبہ کے پاس جانے والے ان اداروں کا انتظام بھی درست ہو سکے اور یہ ادارے خسارے میں چلنے کے بجائے منافع بخش ادارے بن سکیں، حکومتی ملکیتی 84اداروں کی کارکردگی کا نجکاری کمیٹی نے جائزہ لیا جس کے بعد 24اداروں کی فوری نجکاری منظوری دی گئی ہے جن میں قومی ائیرلائن’ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن’ زرعی ترقیاتی اور فرسٹ ویمن بنک سمیت دیگر ادارے شامل ہیں پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ قریب ہے اس کے بعد خسارے میں چلنے والے دیگر حکومتی ملکیتی اداروں کی باری آئے گی بدقسمتی سے ہمارے ہاں سرکاری اداروں میں بدعنوانی’ بے ضابطگیوں پر قابو پانے کی کوششیں نہیں کی گئیں اور یہ بدعنوانیاں اس حد تک بڑھ گئیں کہ سرکاری اداروں پر عوام کا اعتماد جاتا رہا خسارے میں چلنے والے اداروں کا بوجھ کب تک حکومت سہار سکتی ہے بالآخر بہت سوچ وبچار کے بعد ان اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا گزشتہ تین دہائیوں سے مختلف سرکاری اداروں کی نجکاری کی پلاننگ پر عمل کرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے تاہم اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی تاحال خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کا عمل مکمل نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے موجودہ حکومت نے 24اداروں کو نجی شعبہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو درست ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ خسارے میں چلنے والے جن اداروں کی نجکاری کی منظوری دی گئی ہے اس میں مزید تاخیر نہ کی جائے کیونکہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کو ہر سال بیل آئوٹ پیکج دینا حکومت کیلئے مشکل ہے کیونکہ ملک میں ریونیو کے اہداف حاصل کرنا بھی خاصا دشوار ہے مہنگائی کے مارے عوام سے ٹیکس کی وصولیاں کرنا بھی آسان نہیں لہٰذا ایسے میں حکومت کو نجکاری کے معاملے میں جلد عملدرآمد پر توجہ دینا ہو گی نجکاری سے ملکی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور حکومت کو مزید منافع بخش اداروں کی مالی امداد کرنے سے بھی چھٹکارا حاصل ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں