رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ھو جاں ” اللہ رب العزت نے انسانی معاشرے کو منظم اور پر امن عافیت بنانے کے لیے ھدایت کا سلسلہ قائم فرمایا اور اس عظیم الشان مشن کے لیے اپنے برگزیدہ انبیا ورسل علیہم السلام مبعوث فرمائے ۔ ہزاروں برس پر محیط یہ سلسلہ جاری رہا حتی کہ ھدایت و مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے محبوب برحق نبی آخر زمان رحمت دو جہاں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری ھوئی اور ختم الانبیا بن کر تشریف لائے ۔لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ نبوت کا دروازہ ھمیشہ ھمیشہ کے لئے بند ھو گیا اور کیوں نہ ھوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کامل و اکمل کوئی ھو ہی نہیں سکتا ۔ 63 سال کی ظاہری زندگی گزار کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرما گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لیے جان بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے ۔ آپ ۖکی اِس پیاری امت میں ،آپ ۖسے محبت کرنے والے ،اور ناموس ِرسالت کے تحفظ کے لیے قربان ہونے والے ،روشن ستاروں کی مانند چمکتے دمکتے عاشقان ِرسولۖ، ہر دور میں ہی دنیا کے ماتھے کا جھومر رہے ہیں اور امت ِمسلمہ کے یہ وہ عظیم مرد ِمجاہد ہوتے ہیں کہ جو ہمیشہ کے لیے امر ہوتے ہوئے ،حقیقی معنوں میں ،رب العزت کی عطا کردہ زندگی بامقصد بنا جاتے ہیں۔ غازی علم دین شہید بھی انہی ستاروں میں سے ایک روشن ستارہ ہیں کہ جنہوں نے گستاخِ رسول ہندو راجپال کوجہنم واصل کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ یہ مرد ِمجاہد اور عاشق ِ رسول4 دسمبر 1908 بروزجمعرات اندرون شہر لاہور میں پیدا ہوئے،آپکے والد طالح محمد بڑھئی کا کام کرتے تھے ،علم دین ابھی ماں کی گودمیں ہی تھے کہ ایک روز ان کے دروازہ پرایک فقیر نے دستک دی اور صدا لگائی،آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کواٹھائے ہوئے ،اس سوال کرنے والے کو حسبِ استطاعت کچھ دینے کے لیے گئیں،جب اللہ کے اس بندے کی نظر آپ پر پڑی ،تو اللہ والے نے آپ کی والدہ سے کہا کہ تیرا یہ بیٹابڑے نصیب والا ہے ،اللہ نے تم پر بہت بڑا احسان کیا ہے تم اس بچے کو سبز کپڑے پہنایا کرو۔علم دین قدرے بڑے ہوئے تو آپکے والدنے آپ کو محلہ کی ایک مسجد میں داخل کر وا دیا ،غازی علم دین تعلیمی سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رکھ سکے ۔اور آپ کے والد اپنے ساتھ کام پر لے جانے لگے،زندگی کے شب وروز ہنسی خوشی بسر ہوتے رہے ، جب آپ جوان ہوئے تو ،ماموں کی بیٹی سے منگنی کر دی گئی۔ انہی دنو ں ایک ہندو پبلشر راجپال نے حضور اقدس ۖ کی شانِ مقدس میں گستاخی کرتے ہوئے ناقابلِ برداشت خیالات پر مبنی رنگیلا رسول نام کی کتاب شائع کی ، جس کی اشاعت پر ہندوستان بھر کے مسلمان آگ بگولہ ہوتے ہوئے ۔اس سلسلہ میں عبدالعزیز اور اللہ بخش نے بدبخت راجپال کو نقصان پہنچانے کی کوشش تو کی ، مگر ناکام رہے اور عدالت نے ان پر حملہ کرنے کے جرم میں دونوں کو سخت سزائیں دیں، اس وقت انگریز وں کی حکومت تھی ،انگریز اور ہندو مسلم دشمنی کی بنا پر ایک ہی ڈگر کے مسافر تھے ، اور راجپال اور اس کی مکروہ کتاب کی اشاعت کے تحفظ کرنے میں پیش پیش تھے ،اس کے علاوہ مولوی نور الحق مرحوم (جو اخبار مسلم آٹ لک کے مالک تھے) نے اخبار میں راجپال کے خلاف لکھا تو انہیں بھی دو ماہ کی سزا کے ساتھ ایک ہزار روپیہ جرمانہ بھی کیا گیا۔مسلمان جگہ جگہ احتجاج اور مظاہرے کر رہے تھے ، جلسے جلوس اور اخبارات خبرو ں سے بھرپور تھے. یکم اپریل تھا ، کہ غازی علم دین شہید نے اپنے بڑے بھائی شیخ محمد دین کے ساتھ ایک جلسہ میں نوجوان مقرر کو سنا،جو راجپال اور اس کی کتاب کا ذکر کرتے ہوئے ، مسلمانوں کے دکھ کا اظہار کر رہا تھا اور مسلمانوں کو بیدار کر رہا تھا، کہ جاگو! مسلمانو ! جاگو! بد بخت راجپال واجب القتل ہے ، ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں قربان کر دو ۔تقریر کے ان سنہری الفاظ نے علم دین شہید کے قلب و روح میں ہلچل سی مچا دی ،اور ان الفاظ کی گونج لئے ہوئے گھر پہنچے اور گستاخِ رسول کو قتل کر نے کا عہد کیا، آخر کار 6اپریل 1929کو انار کلی سے ایک چھری خریدی اور اسے خوب تیز کروا کر عشرت پبلشنگ ہاس کے سامنے واقع دفتر راجپال پہنچے ،کہ راجپال بھی اپنی کار میں وہاں آ گیا، بدبخت راجپال کو دیکھتے ہی علم دین کی آنکھوں میں خون اتر آیا ،راجپال کی حفاظت کے لئے حکومت نے پولیس تعینات کر رکھی تھی ،لیکن اس وقت راجپال کی ہر دوار یاترا سے واپسی کی اطلاع نہ ہونے کی وجہ سے پولیس اہلکار حفاظت کیلئے ابھی نہیں پہنچے تھے ، اور راجپال اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنی آمد کی اطلاع دینے کے لئے فون کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ عظیم مردِ مجاہد غازی علم دین دفتر کے اندر داخل ہو گئے ، اس وقت راجپال کے دو ملازم کیدار ناتھ اور بھگت رام موجود تھے ، لیکن ان دونو ں کی موجودگی علم دین کے جذبے کے آگے بے دم ہو کر رہی گئی ، اور ان کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی ،اور انہوں نے چھری کے پے در پے وار کر تے ہوئے بدبخت راجپال کو جہنم واصل کر دیا، بعد میں علم دین کو گرفتار کر لیا گیا اور دفعہ 302کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔10اپریل ساڑھے دس بجے مسٹر لوائسٹ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔22مئی 1929کو سیشن جج لاہور نے علم دین کو سزائے موت کو حکم سنایا، 15جولائی کو غازی علم دین کو سنائی جانے والی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی۔ 17جولائی کو یہ اپیل خارج کردی گئی، مسلمانوں نے ہائی کورٹ میں علم دین کے مقدمہ کی پیروی کے لئے قائد اعظم کی خدمات بھی حاصل کیں،ماہرینِ قانون کا یہ خیال تھا کہ اگرغازی علم دین اپنے جرم سے انکار کر دیں ، تو مقدمہ کافی حد تک کمزور اور قابلِ بریت ہو سکتا ہے ، لیکن علم دین شہید نے کسی ایسی تجویز پر عمل کرنے سے یکسر انکار کر دیا،کہا جاتا ہے اس سلسلہ میں نمائندہ وفد نے علامہ اقبال سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ علم دین شہید کو اپنے اقبالِ جرم سے انحراف کی ترغیب دیں لیکن علامہ اقبال نے روتے ہوئے فرمایاکہ میرے نزدیک اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس نے میرے رسولِ مقبول ۖ کو کبھی میلے لباس میں دیکھا ہے تو وہ بھی قابل گردن زدنی ہے اور پھر وہ تاریخی جملہ کہا جو آج بھی عاشقانِ رسولۖ کے کانوں میں گونجتا نظر آتا ہے کہ اسی گلاں ای کردے رہ گئے تے بازی ترکھان دا پتر لے گیامزید فرمایا کہ وہ علم دین شہید کو اس عظیم اعزاز سے محروم کرنے کا مشورہ کیسے کیسے دے سکتے ہیں ۔ اپیل خارج ہونے پر مسلمانوں میں سخت اشتعال پھیل گیااور لاہور میں فساد کے خطرے کے پیش ِنظر،3اکتوبر1929کو غازی علم دین کورات تقریبا ساڑھے نو بجے گوجرانوالہ اور وہاں سے بذریعہ ریل گاڑی میانوالی روانہ کیا گیا۔میانوالی جیل میں موجود عملہ اور قیدی غازی علم دین کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ غازی علم دین نے سپریٹنڈنٹ جیل کو آخری وصیت لکھوائی ،جس میں وارثان کو اسلامی احکامات کی پابندی کی تلقین کی،مزار کی تیاری کے متعلق اوراپنے لباس و دیگر اشیا،رشتہ داران کودینے کی ہدایات صادر فرمائیں۔31اکتوبر1929کادن امتِ مسلمہ کیلئے بڑارنجیدہ اور مغموم تھا،جبکہ غازی علم دین کیلئے انتہائی خوشی وشادمانی کا دن تھا۔ غازی علم دین شہیدنے وصیت فرمائی تھی کہ انہیں میانی صاحب لاہور میں دفن کیا جائے،مگر انگریزوں کا خیال تھا کہ اگر وصیت کے مطابق عمل درآمد کرتے ہوئے میت لاہور بھیجی گئی ،تو میانوالی شہر سے لے کر لاہور تک کے تمام مسلمان،لاہور پہنچ جائیں گے اور ہندو مسلم فساد کھڑا ہو جائے گاجسے روکنا مشکل ،بلکہ ناممکن ہو جائے گا،ان خدشات کے پیشِ نظراس وقت کے گورنر پنجاب ڈی مانٹ مورنسی نے ہدایت جاری کردی کہ غازی علم دین کو میانوالی ہی میں قیدیوں کے قبرستان میں دفن کردیا جائے۔ غازی علم دین بشہید کو میانوالی میں دفنائے جانے پر،مسلمانوں میں غم و غصہ کی شدید لہر دوڑ گئی،قریب تھا کہ بہت بڑا فساد کھڑا ہوتا ….وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے،علامہ محمد اقبال ،سر محمد شفیع،مولانا غلام محی الدین قصوری،میاں عبدالعزیز اور دیگر احباب نے وفد کی صورت میں گورنر پنجاب سے ملاقات کرتے ہوئے میت کی حوالگی اور اسے لاہور میں دفن کرنے کا مطالبہ پیش کیا،گورنر پنجاب نے امن کے پیشِ نظر ،چند شرائط پیش کیں،جس کی ذمہ داری وفد کے اراکین نے قبول کی۔ 13نومبر 1929کو غازی علم دین شہید کی میت قبر کشائی کرواکر نکلوائی گئی،جو اسی طرح خوشبو سے معطر اور ترو تازہ تھی۔جسد ِمبارک کیلئے تابوت ،سید مراتب علی شاہ نے اپنی نگرانی میں تیار کروایا، شہید کا جسد ِ مبارک 13نومبر کو بذریعہ ٹرین ساڑھے چار بجے دوپہر میانوالی سے لاہور چھاونی کے ریلوے سٹیشن پر تقریباصبح ساڑھے پانچ بجے پہنچا۔جسے سنٹرل جیل کے حکام نے تقریباپونے سات بجے حضرت علامہ محمد اقبال اور سر محمد شفیع وغیرہ کے سپرد کردیا۔ 14نومبرکو تقریباساڑھے دس بجے قاری محمد شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان،نے نمازِ جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل کی۔
17